پیپلز پارٹی کی سندھ میں دہائیوں سے مسلسل حکومت کا ایک ہی راز ہے کہ وہ اپنے صوبائی افسران اور سیاسی کارکنان کو عزت دیتے ہیں۔ یہی پالیسی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کے لگاتار تیسرے اقتدار کی وجہ بنی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صوبائی افسران شدید محکومی اور استحصال کا شکار ہیں۔ جہاں گریڈ 22میں صوبائی افسران کی سیٹ ہی نہیں تو گریڈ 21 اور 20 میں انتہائی کم سیٹیں دی گئیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک ساتھ این ایم سی اور ایس ایم سی کرنے والے وفاقی افسران تو فوری پرموٹ ہوجاتے ہیں جبکہ صوبائی افسران اس انتظار میں لگ جاتے ہیں کہ پہلے جائیں گے تو ہماری باری آئے گی۔ یہی حالات گریڈ 18سے19میں جانے والوں کے ہیں جہاں 100 سے زائد افسران پی پی جی کرکے کئی سال سے ترقی کی راہ تک رہے ہیں، اسی طرح 17سے18 کیلئے پی ایس ایم جی کرکے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔

صوبائی افسران کی ترقی ”مشن امپاسبل” سے کم نہیں، مہینوں ٹریننگ لیٹ کی جاتی ہے، سارے تاخیری حربوں کے باوجود ٹریننگ کرنے میں کامیاب ہونے والوں کو پروموشن بورڈ میں غیر ضروری تاخیر کرکے لامتناہی انتظار کی سولی پرلٹکا دیا جاتا ہے۔ خدا خدا کرکے بورڈ کیا جاتا ہے تو وہاں بھی صوبائی افسران کو ترقی دینے کی بجائے بغیر کسی سولڈ وجہ کے ڈیفرڈ کر دیا جاتا ہے۔صوبائی سروس کے جن افسران کو معزز عدلیہ الزامات اور کیسز سے باعزت بری کر چکی ہے انہی کیسز میں انٹی کرپشن کی طرف سے تفتیش جاری کا کہہ کر ترقی نہ دینا سخت زیادتی اور توہین عدالت کے مترادف ہے۔جس کیس میں مرکزی ملزم چوہدری پرویز الہیٰ عدالت سے بری ہوچکے ہیں۔ اسی کیس میں صوبائی افسران پر الزامات کی تفتیش کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، بدنیتی کی انتہا کہیے کہ تین سال سے چالان نہیں جمع کروایا جارہا اور زیر تفتیش کا کہہ کر صوبائی افسران کو ترقی نہ دینا انٹی کرپشن کی نااہلی اور بدترین انتقامی کاروائی ہے۔ اسی کیس میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر ان بھی کمیٹی ممبر تھے لیکن انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں اور صوبائی افسران کو جیل بھی جانا پڑا اور آج تک ترقی کی راہ تک رہے ہیں۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل سے لیکر تمام ملکی و غیر ملکی تنظیموں کی سروے رپورٹ میں پولیس کرپشن انڈیکس میں ہمیشہ ٹاپ تھری پوزیشن پر رہی ہے لیکن جب سے انٹی کرپشن کے قوانین کے برخلاف پولیس افسران کو انٹی کرپشن کا ہیڈ لگایا گیا ہے کسی ایک پی ایس پی افسر تو درکنار ڈی ایس پی لیول کے جونئیر پولیس افسر کے خلاف بھی کاروائی نہیں کی گئی۔ کرپٹ پولیس اہلکاروں کا احتساب تو درکنار، گریڈ 17کے ڈی ایس پی کو ڈویژنل سربراہ انٹی کرپشن لگا دیا گیا۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز شرمناک ڈرامہ کیا ہوگا کہ جہاں گریڈ 20کے کمشنر، آر پی او اور سی پی او ہوں وہاں گریڈ 17 کا ڈی ایس پی ڈویژنل سربراہ انٹی کرپشن۔ حتیٰ کہ انٹی کرپشن کے گریڈ 18کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی بھی گریڈ17کے ڈی ایس پی ماتحت ہیں۔
میڈم وزیر اعلیٰ اور ملکی سلامتی کی محافظ ایجنسیز کو مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
چیف سیکرٹری نے اہم پوزیشن پر اوپر سے لیکر نیچے تک سنئیر سیٹوں پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے جونئیر افسران لگا رکھے ہیں جبکہ صوبائی افسران کے ساتھ استحصال کا معاملہ الٹ ہے کہ بہت ساری جگہوں پر پی ایم ایس کے سنئیر افسران کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے جونئیر افسران کے ماتحت لگایا گیا ہے۔
کج شہر دے لوک وی طالم سن
کج سانو مرن دا شوق وی سی

یہی وجوہات ہیں کہ صوبائی سروس کے بہت سارے افسران گریڈ 20میں جانا عذاب سمجھتے ہیں کہ انہیں نوے ماڈل کھٹارا گاڑی اور کھڈے لائن پوسٹنگ دے کر کلرک بنادیا جائے گا۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کی پوسٹنگ دیکھتے جائیں اور شرماتے جائیں گریڈ سترہ والے کو اٹھارہ جبکہ کتنے ہی گریڈ اٹھارہ کے افسران کو گریڈ انیس اور بیس میں ڈی جی، ایم ڈی اور سی ای او کی سنئیر سیٹوں پر نوازشیں کی گئی ہیں۔ ان مزکورہ لاڈلے افسران کے بارے یہ بات زبان زدعام ہوتی جا رہی ہے کہ فلاں جونئیر افسر فلاں پاور فل سنئیر افسر کا کماؤ /پلاؤ پتر ہے۔میڈم وزیراعلیٰ آپ کے دور حکومت میں خواتین افسران کوسیکرٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کی اہم ترین سیٹوں پر تعینات کیا گیا لیکن صوبائی سروس سے کسی ایک خاتون آفیسر کو بھی سیکرٹری، کمشنر یا ڈی سی نہیں لگایا گیا۔

پنجاب کی صوبائی سیکرٹریز کی 42 سیٹوں میں سے 6/7سیکرٹریز کی سیٹیں بامشکل پی ایم ایس افسران کو دی گئی ہیں وہ بھی غیر اہم سے محکمہ جات۔ 41 میں سے صرف 12 اضلاع میں صوبائی سروس کے ڈپٹی کمشنر ہیں باقی تمام اہم اضلاع میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران تعینات ہیں۔ اسی طرح اہم اضلاع کے اے ڈی سی آر اور اسسٹنٹ کمشنر کی بڑی تحصیلوں پر بھی پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے جونئیر ترین افسران براجمان ہیں۔سی ای او IDAP، خود مختار اٹھارٹیز، ورلڈ بنک سمیت انٹرنیشنل فنڈنگ والی تمام سیٹیں بھی پی ایم ایس افسران کے لیے شجر ممنوعہ قرار دے کر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے جونئیر افسران کو اربوں روپے کے استعمال کیلئے سیا و سفید کا مالک بنا دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے گزارش ہے کہ جس صوبے کی آپ وزیراعلیٰ ہیں اسی کے صوبائی افسران بے یارومددگار دہائیاں دے رہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔میڈم وزیراعلیٰ صوبائی افسران کو انکا جائز حق دیا جائے تاکہ وہ دل و جان سے پنجاب کی خدمت کرسکیں.

Shares: