اک شجر سایہ دار تھا، نہ رہا
تحریر:حبیب اللہ قمر
پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ بھی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات پراسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والوں کے دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دلوں پر اداسی کی ایک چادر سی تن گئی ہے۔بلاشبہ وہ ایسے خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جو دنیا میں اس طریقے سے زندگی گزارتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں۔ آج ہر کسی کی زبان پر ان کی دینی خدمات اور جرأت مندانہ کردار کے تذکرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موت ایسی قابل رشک دی کہ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ وہ جب تک زندہ تھے ہر مجلس کی جان ہوا کرتے تھے۔ لوگ انھیں سننا چاہتے تھے۔ وہ تنظیمی و تحریکی سرگرمیوں میں سستی و غفلت پر سرزنش بھی کرتے تو زبان سے نکلے لفظوں کے موتی اتنے خوب صورت ہوتے کہ سننے والوں کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا تھا۔
انہوں نے اپنی پوری زندگی کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت، مظلوم مسلمانوں کی عزتوں و حقوق کے تحفظ اور امت کی رہنمائی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ دلوں کو جوڑنے اور باہم اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے والے عظیم رہنما تھے۔ ان کی وفات سے علم کا ایک دروازہ بند ہوا ۔ ان کی باتیں علم و حکمت سے آراستہ ہوتیں تو کردار میں عاجزی و انکساری کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ وہ تحریک پاکستان کے سرکردہ لیڈراور معروف عالم دین پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے تھے۔ وہ اس خاندان کے چشم و چراغ تھے جو قیام پاکستان کے وقت اپنے گھر بار، زمینیں اور جائیدادیں وغیرہ سب کچھ چھوڑ کر محض اللہ کی رضا اور اسلام کی محبت میں ہجرت کر کے پاکستان پہنچا۔حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ نے اولاد کی تربیت کرتے وقت بچپن سے ہی ان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کی تھی کہ دین کی خاطر ہر قربانی دے دینا لیکن اس پر عمل میں کوئی کمزوری نہیں آنی چاہیے۔ حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے اپنے والد کے اس سبق کو خوب اچھی طرح یاد کیا اور آخر دم تک نبھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
حافظ عبدالرحمن مکی کی خداداد صلاحیتوں کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں محض سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنے کی توفیق سے نواز دیا۔ پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ جو کہ ایس ای کالج بہاول پور میں پروفیسر تھے، نے ایک استاد کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ ان کے صاحبزادے کو پڑھا دیا کریں۔ یعنی سکول کی تعلیم وہ اس استاد سے حاصل کرتے اور گھر میں دینی تربیت ان کے والد خود کیا کرتے تھے۔ پروفیسر حافظ محمد سعید جنہوں نے خود اپنے ماموں حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کی، وہ بتایا کرتے تھے کہ میں دوسرے بچوں کی طرح سکول میں جا کر پڑھا لیکن عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے گھر میں پڑھ کر ہی میرے ساتھ میٹرک کا امتحان دیا اور اچھے نمبروں میں پاس ہو گئے۔ اس کے بعد پھر کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے تک پروفیسر حافظ محمد سعید اور حافظ عبدالرحمن مکی ساتھ ساتھ رہے۔
عبدالرحمن مکی اسلامی جمعیت طلباء کے بہت فعال اور متحرک رکن تھے۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا مودودی رحمہ اللہ ان کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے اوروہ بھی ملاقات کے لیے اکثر ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ بنگلہ دیش نامنظور تحریک چلی تو پروفیسر حافظ محمد سعید کے ہمراہ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے بھی اس میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اسی طرح بھٹو دور میں تحریک نظام مصطفی شروع ہوئی تو اس میں بھی وہ پیش پیش رہے۔ وہ اپنے جرأتمندانہ کردار کی بدولت وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کرکے بدنام زمانہ شاہی قلعہ کے ٹارچر سیل میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران ان پر انتہائی بہیمانہ تشدد کیا گیا، رولر پھیرے گئے اورپلاس سے ناخن کھینچے جاتے لیکن ظلم کرنے والے ایک پل کے لیے بھی انھیں جھکا نہیں سکے اور ان کے پایہ استقامت میں لمحہ بھر کے لیے بھی لغزش نہیں آئی۔
حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ اپنی زندگی کے چھپے گوشوں سے پردہ اٹھاتے تو ان کی باتیں سن کر بندہ ششدر رہ جاتا کہ انھیں اپنی زندگی میں کس قدر آزمائشوں کا سامنا رہا ہے ۔ قیدوبند کی صعوبتوں کے دوران جب ان کا کیس زیر سماعت تھا تو ایک مرتبہ سرکار کاایک وکیل عدالت میں بڑے تکبر سے کہنے لگا کہ میرے ہوتے ہوئے تم جیل سے باہر نہیں آ سکتے۔ اس پر مکی صاحب نے بھری عدالت میں اس کی خوب خبر لی اور کہا کہ ابھی جب کیس زیر سماعت ہے تو تم میرا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہو۔ بہت جلد میرا اللہ مجھے چھڑائے گا اور تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے،کچھ عرصہ بعد پھر یہی ہوا بھٹو کا تختہ الٹ گیا اور عدالت نے بھی کیس کو جھوٹا قرار دے کر انھیں رہاکر دیا۔ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی رہائی میں مولانا مودودی رحمہ اللہ نے بھی کوششیں کیں اور اس حوالے سے ان کا بھی کردار رہا۔
حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی میں بطور لیکچرر بھرتی ہو گئے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور وہ ملک میں مختلف حوالے سے اصلاحات کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس دوران جنرل ضیاء نے علماء کی مشاورت سے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں قانون اور شریعہ کے ماہر ایسے علماء اور محقق تیار ہونے چاہئیں جو ملک میں نفاذ اسلام کے حوالے سے کردار ادا کر سکیں۔ اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کواعلیٰ تعلیم کے لیے سعودی عرب بھجوانے کا بھی فیصلہ ہوا جن میں عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کا نام بھی شامل تھا۔ حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کو پتا چلا تو پہلے تو انہوں نے انکارکیا کہ وہ بیٹے کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق جنھیں وہ دعوتی و اصلاحی خطوط لکھتے رہتے تھے، انھوں نے علماء کے ذریعے پیغام بھیجا اور بعض دوسرے احباب نے بھی اصرار کیا تو حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ اس کے لیے آمادہ ہو گئے۔ یوں عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ سعودی عرب کی ام القریٰ یونیورسٹی میں پڑھنے لگے اور علم الحدیث میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔
وہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا بیشتر وقت ان کے دارالافتاء میں گزرتا تھا۔ اسی عرصہ میں پھر جنرل ضیاء الحق وفات پا گئے اور عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ بھی سعودی عرب میں دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نجی سطح پر کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ اردو کی طرح عربی اور انگریزی بھی بہت روانی کے ساتھ بول لیتے تھے۔ عربی زبان میں ان کی گفتگو اتنی شان دار ہوتی کہ عرب لوگ بھی سن کر رشک کرتے تھے۔ جب تک وہاں پابندیوں کے حالات نہیں تھے ان کے پروگرام مختلف عرب ملکوں میں ہوتے اور وہ ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا کرتے تھے۔ میں نے اکثر اہل علم کی زبان سے یہ بات سنی ہے کہ شورش کاشمیری اور علامہ احسان الہٰی ظہیر کے بعد آج کے دور میں سحر انگیز خطابت کسی میں دیکھنے کو ملی ہے تو وہ حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ ہیں۔ تاریخ کے موضوع پر یوں بات کرتے کہ جیسے صدیوں کی باتیں پوری طرح حفظ کر رکھی ہوں۔ وہ جس موضوع پر گفتگو کرتے علم کے موتی بکھیر دیتے اور سامعین میں سے ہر کوئی ہمہ تن گوش ہو جاتا۔ کتاب و سنت اور عصر حاضر کے علوم و فنون پر اتنی گہری نظر رکھنے والا اس وقت کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا۔
حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ اسلام کے فریضہ جہاد سے بہت محبت رکھتے تھے۔ نوے کی دہائی میں جب کشمیر کی تحریک نے عروج پکڑا اور حافظ محمد سعید نے سعودی عرب جا کر انھیں دعوت و جہاد کی تحریک میں حصہ لینے کے لیے پاکستان آنے کا کہا تو انھوں نے فورا حامی بھر لی۔ اگرچہ سعودی عرب میں رہتے ہوئے انھیں ہر قسم کی آسائشیں اور سہولیات میسر تھیں لیکن دین اور جہاد کی خاطر محض دو سے تین دن میں اپنے سارے معاملات سمیٹے اور اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ وطن واپس لوٹنے کے بعد وہ ایک دن کے لیے بھی آرام اور سکون سے نہیں بیٹھے اور اپنی پوری زندگی کشمیر کی آزادی اور تحریک دعوت و جہاد کے لیے کھپا دی۔ جہاد کے موضوع پر ان کے خطابات خاص طور پر دلوں کو گرما دینے والے ہوتے۔ ہزاروں نوجوان ان کی تقریریں سن کر عملی میدان میں اترے اور پھر ایسی لازوال قربانیاں پیش کیں کہ جنھیں تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ جوانی کے ایام میں تھے تو حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کو اس بات کی فکر رہتی تھی کہ ان کا بیٹا جلسوں اور عوامی اجتماعات سے خطاب میں دلچسپی کم لیتا ہے۔ وہ بہت دعائیں کرتے کہ میرے بیٹے سے دین کا کام لے، اس کا سینہ فراخ کر دے اور زبان و بیان میں قوت پیدا کر دے۔پھر آسمان والے رب نے ان کی یہ دعا اس انداز میں قبول کی کہ اسی بیٹے کو خطابت کا ایسا شہسوار بنایا کہ دنیا ان کی گفتگو سننے کو ترستی تھی۔ یہی عبدالرحمن مکی جب تقریر کرتے تو گھنٹوں بولتے چلے جاتے اور لمحہ بھر کے لیے بھی چہرے پر تھکاوٹ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ان کے دل میں جہاد کی تڑپ اتنی تھی کہ کہا کرتے تھے کاش میرے ہاتھ سے میدان جہاد میں ایک ہندو فوجی مارا جائے اور میں اپنے رب سے کہہ سکوں کہ میں نے فلاں غاصب ہندوستانی فوجی کو قتل کیا ہے جبکہ دوسری طرف اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دل میں نرمی بھی انتہا درجے کی تھی۔کشمیری شہداء کے جنازے پڑھاتے توآبدیدہ ہو جاتے۔ کشمیریوں سے یہی والہانہ محبت اور لگاؤ تھا کہ ان کی وفات پر پورے مقبوضہ کشمیر میں غم کی کیفیت رہی اور حریت قیادت سمیت سبھی کشمیری قائدین نے تعزیتی پیغامات میں کہا کہ آج ہم کشمیریوں کے حق میں بات کرنے والی ایک مضبوط اور توانا آواز سے محروم ہو گئے ہیں۔
امریکی جیل گوانتا ناموبے میں قرآن مجید کی بے حرمتی ہوئی تو عبدالرحمن مکی تڑپ اٹھے اور پروفیسر حافظ محمد سعید کی ہدایات پر مولانا امیر حمزہ اور محمد یعقوب شیخ کے ہمراہ فوری ملک گیر تحریک منظم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ مغرب میں گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تو تحریک حرمت قرآن کی طرح تحریک حرمت رسولؐ میں بھی پیش پیش رہے۔ اسی طرح تحریک تحفظ قبلہ اول ، دفاع پاکستان کونسل اور سرزمین حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے چلائی گئی تحریکوں میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا اور فتنہ تکفیر اور خارجیت کے رد کے لیے ملک کے کونے کونے میں جا کر لوگوں کی تربیت کی کہ مسلمانوں سے لڑائی تو دور کی بات ان کی طرف ہتھیار کا رخ کرنا بھی اسلام میں حرام ہے۔ ان کی تحریکی سرگرمیوں پر مبنی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ اس کے لیے الگ سے مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے، یہاں میں صرف اتناکہوں گا کہ صحت کو درپیش مسائل کے باوجود انھوں نے ملک کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا جہاں وہ دعوت دین کی آواز بلند کرنے کے لیے نہ پہنچے ہوں۔
ایک ایسا شخص جسے ڈاکٹروں نے صاف کہہ دیا ہو کہ آپ کے دل کا مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ ہم بائی پاس نہیں کر سکتے، یونہی دوائیوں کے ذریعے ہی علاج جاری رکھنا پڑے گا، اس نے اپنی زندگی میں کئی برسوں تک کبھی اپنی بیماری کو محسوس تک نہیں ہونے دیا۔ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ صبرواستقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی جوانی کے ایام میں کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے ۔ دوسرا بیٹا کینسر کے سبب شوکت خانم ہسپتال میں داخل ہوا تومیں اور برادرم یحییٰ مجاہدجن کے ساتھ مکی صاحب کا بہت پرانا اور گہرا تعلق تھا، ایک جگہ پر ان کے ساتھ موجود تھے۔ وہاں ایک بھائی نے ان سے کہہ دیا کہ آج کل تو آپ بیٹے کی بیماری کی وجہ سے بہت مصروف ہوں گے۔ وہ کہنے لگے میں نے ساتھیوں سے سختی سے کہا ہے کہ ملک میں کسی جگہ بھی طے کردہ میرا کوئی پروگرام کینسل نہیں کرنا، میں ہر جگہ جاؤں گا اور خطاب کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے پروگراموں پر جانے سے جتنی زیادہ کتاب و سنت اور جہاد کی آواز بلند ہو گی میرا اللہ ہم پر رحم کرے گا اور میرے بیٹے کے لیے بھی آسانی پیدا کرے گا۔
زندگی کے آخری ایام میں بھی ان کی حالت یہ تھی کہ شوگر کی وجہ سے پاؤں پر زخم آ گئے تھے اور ان سے چلا نہیں جاتا تھا لیکن وہ پاؤں پر پٹیاں باندھ کر پورے ملک میں پروگرام کر رہے تھے۔ انھی دنوں میں جب تکلیف زیادہ بڑھی تو انھیں قائل کر کے ہسپتال داخل کروایا گیا، اسی دوران ان کے پاؤں کا ایک انگوٹھا کاٹنا پڑا۔ ابھی علاج جاری تھا کہ جمعہ کے دن فجر کے بعد اچانک دل کی تکلیف ہوئی اور وہ قریب موجود ساتھیوں کو گواہ بنا کر کلمہ پڑھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حافظ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ کسی ایک جماعت یا کسی مسلک کے نہیں بلکہ پوری امت کے نمائندے تھے۔ وہ تحریک دعوت و جہاد کے عظیم انقلابی رہنما تھے۔ ان کی وفات یقینا موت العالم موت العالم کے مصداق ہے۔ ان کی نماز جنازہ ان کے بھانجے پروفیسر حافظ طلحہ سعید نے پڑھائی۔ گورنمنٹ ایجوکیشنل کمپلیکس ننگل ساہداں مریدکے کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں ادا کی گئی نماز جنازہ میں جید علماء کرام، شیوخ الحدیث اور دینی مدارس کے اساتذہ و مہتتم حضرات سمیت مختلف مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ان کی شخصیت، علم و تقویٰ اور دین کے لیے قربانیوں نے ان کے جنازے کو ایک عظیم الشان منظر بنا دیا۔ لوگ ان کے علم، اسلام و پاکستان کے لیے قربانیوں اور ان کی ثابت قدمی کو یاد کر کے زاروقطار روتے رہے۔ شدید سردی اور بارش کے موسم کے باوجود جس طرح لوگ دور دراز کے علاقوں سے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرکے جنازے میں پہنچے یہ منظر اس بات کی گواہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے لیے کی جانے والی ان کی کاوشوں اور ان کے صبر کا بہترین صلہ عطا فرمایا ہے۔ حقیقت ہے کہ جو شخص اپنے رب کی رضا کے لیے زندگی گزارتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور اس کے دنیا سے جانے کے بعد بھی عزت عطا فرماتا ہے۔ اپنے بہترین دیرینہ ساتھی کی وفات پر پروفیسر حافظ محمد سعید نے جس صبر کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
انھوں نے کارکنان کو خاص طور پر نصیحت کی ہے کہ یہ وقت غم کا ضرور ہے لیکن ہمیں صبر کرنا ہے اور اپنی زبان سے وہی الفاظ ادا کرنے ہیں جن سے اللہ راضی ہو۔ ہمیں عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی خدمات کو یاد رکھتے ہوئے اس بات کا عزم کرنا ہے کہ ہم ان کی پیش کردہ دعوت کو ملک کے کونے کونے میں پھیلائیں گے اور امت کی بھلائی کے لیے اسی اخلاص اور محنت کے ساتھ کام کریں گے جس کے لیے وہ زندگی بھر کوشاں رہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی دین اسلام کے لیے قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ان کی قبر کو منور فرمائے۔ آمین۔