انتخابات، دھاندلی کا شور اور جمہوریت، تجزیہ، شہزاد قریشی

qureshi

(تجزیہ شہزاد قریشی)
چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات سے متعلق کہا ہے کہ ہمارا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں ۔ سیکورٹی دینے کے سوا۔ بلاشبہ فوج کا کام سیکورٹی کی فراہمی تھی ۔ عوام کو بھی الزام لگانے والوں سے سوال کرنا چاہیئے کہ فوج جو سیکورٹی پر مامور تھی اُس نے جعلی ووٹ ڈالنے میں اپنا کردار ادا کیا ؟ پھر سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں پر یلغار کیسی ؟ الیکشن کروانا ،الیکشن کمیشن کا کام ہے ۔ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اگر الیکشن کمیشن ملک میں آزادانہ ، منصفانہ الیکشن نہیں کروا سکتا تھا اس پر سوالیہ نشان ہے ؟ فوج اورجملہ ادواروں پر نہیں۔ تاہم سیاستدانوں میں ابھی تک اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ کہ ان کی نظر میں حقیقی جمہوریت کیا ہے؟ جمہوریت نہیں۔ اور یہ مغالطہ مدت سے چلاآرہا ہے آج سے نہیں ؟ 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کا شور۔ 2018 دھاندلی کا شور ۔ آج ایک بار پھر یعنی 2024 دھاندلی کا شور۔ کے پی کے میں عین اسلامی اصولوں کے مطابق الیکشن جبکہ باقی صوبوں میں غیر اسلامی اصولوں کے مطابق الیکشن ۔

ملکی سیاسی جماعتیں یاد رکھیں شور شرابے ، دھرنوں ، غل غپاڑے ، سینہ کوبی سے ملکی معیشت مستحکم نہیں ہو گی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ ملکی معیشت مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ضد ، انا ، ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر بھرپور توجہ ملکی معیشت اور عوام کے بنیادی مسائل پر دیں۔

فی زمانہ عالمی سیاست بھی معیشت کے گرد گھومتی ہے۔ اس لئے اپنے وسائل اور معیشت پر توجہ دیں۔ گلے پھاڑ کر نعرے لگانے سے نہ معیشت مستحکم ہوگی اور نہ ہی آسمان سے من و سلوا اُترے گا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس عوام اور اس ملک پر رحم کریں۔ نواز شریف ایک مدبر زیرک سیاستدان ہیں وہ مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت کی مقبولیت میں اضافے اور مستبل کے لئے جو کردار ادا کررہے ہین وہ (ن) لیگ کے لئے بطور سیاسی جماعت قابل ستائش ہے ورنہ اس جماعت کے چند لوگوں کا ایسا کردار ہے جنہوں نے جن کے کردار سے بدبو آنے لگی ہے ۔ا ن چند کرداروں کی وجہ سے مسلم لیگ(ں) مقبول نہیں غیر مقبول ہوئی ہے۔اسی طرح جیسے کہاں بھٹو کی پیپلزپارٹی اور کہاں آج کی پیپلزپارٹی ۔۔۔۔ایک بھٹو کے اور نواز شریف کا تھا؟

Comments are closed.