الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے، فاروق ایچ نائیک ،عدالت نے کیا دیئے ریمارکس

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی

رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ الیکشن سیاسی معاملہ ہے ریاضی کا سوال نہیں، چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آرڈیننس کا سوال عدالت کے سامنے نہیں،آرڈیننس جاری ہونے پر کوئی رائے نہیں دیں گے،پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی کی تاریخ چھوڑ دیں اصل سوال پر آئیں،جمہوریت میں پارٹی قیادت کا کوئی کردار نہیں ہوتا، جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے قیادت نہیں، کوئی اوپر سے اپنے فیصلے لاکر نافذ نہیں کرسکتا، پارٹیوں کے فیصلے بھی جمہوری انداز میں ہونے چاہییں، آئین میں پارٹیوں کا ذکر ہے شخصیات کا نہیں،

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہر روز مختلف بلوں پر ووٹنگ ہوتی ہے، کبھی اپوزیشن حکومت کو اور کبھی اپوزیشن حکومت کو ووٹ دیتی ہیں،صدر مملکت کے انتخاب کا مکمل طریقہ کار موجود ہے،سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں قانون پر نہیں،ووٹ انفرادی ہو تو رائے شماری خفیہ ہی ہوسکتی ہے،

فاروق نائیک کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا،چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بھارت میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر پارلیمنٹ سینیٹ الیکشن میں ترمیم کرے تو کیا اوپن بیلٹ ہو سکتے ہیں ؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین سے متصادم نہ ہو تو ترمیم ہوسکتی ہے ،

فاروق نائیک نے کہا کہ ووٹ انفرادی ہو تو رائے شماری خفیہ ہی ہوسکتی ہے،پارلیمنٹ میں ہر روز مختلف بلوں پر ووٹنگ ہوتی ہے، کبھی اپوزیشن حکومت کو اور کبھی حکومت اپوزیشن کو ووٹ دیتی ہے،صدر مملکت کے انتخاب کا مکمل طریقہ کار موجود ہے،سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں قانون کے تحت نہیں، مخصوص نشستوں پر الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے،پارٹیاں مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ فراہم کرتی ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں استعمال شدہ لفظ “الیکشن”کو غلط نہ کہیں، کیا ہر ایم پی اے ووٹ دینے کےلیے آزاد ہوتا ہے ؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارٹی لائن پر عمل کرنا سینیٹ الیکشن کے لیے لازمی نہیں،

چیف جسٹس نے کہا کہ کس کو ووٹ دینا ہے یہ فیصلہ پارٹیاں کیسے کرتی ہیں،کیا پارٹیوں کے پاس اجلاس کے منٹ ہوتے ہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے منٹ ہوتے ہیں،خفیہ ووٹنگ میں مداخلت بھی قانون کے مطابق جرم ہے،ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد بھی خفیہ ہی رہتا ہے،

ن لیگ کے بیرسٹر ظفر اللہ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیئے،اور کہا کہ الیکشن کی نمائندگی خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے، تاریخ کے تناظر میں 226 کی تشریح ممکن ہے،

Shares: