اب افغانوں کی مہمان نوازی کا وقت ختم
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
اس وقت پاکستان ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں اسے اپنی قومی سلامتی اور داخلی امن کے تحفظ کے لیے سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا بھارت کا دورہ، اس کے فوراً بعد پاکستانی چیک پوسٹوں پر افغان فورسز کے حملےاور پاک فوج کی بھرپور جوابی کارروائی نے سرحدی کشیدگی کو نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔
9 اکتوبر 2025 کو امیر خان متقی نے ہندوستانی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی، اور دونوں ممالک نے معاشی روابط مضبوط کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دوران پاکستان نے افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس کے جواب میں افغان فورسز نے 11 اکتوبر کی رات پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔ پاکستان آرمی نے فوری جوابی کارروائی کی، جس میں متعدد افغان سرحدی پوسٹیں تباہ ہوئیں اور کئی افغان فوجی ہلاک ہوئے۔
یہ حملے محض "جوابی” نہیں تھے بلکہ یہ بھارت کی سرپرستی میں افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کا حصہ تھے، کیونکہ طالبان بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ تمام واقعات ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر رہے ہیں کہ پاکستان نے 1979 سے لے کر آج تک افغان مہاجرین کو اپنی سرزمین پر کیوں سہارا دیا؟ جب یہ "مہمان” پاکستان کی ازلی دشمن بھارت کے اشاروں پر دہشت گردی اور بدامنی میں ملوث ہو چکے ہیں تو انہیں بغیر کسی رعایت کے پاکستان سے نکالنے کا وقت کیوں نہیں آ گیا؟
پاکستان نے طویل عرصے سے لاکھوں نمک حرام افغانوں کی مہمان نوازی کی۔پاکستانی عوام نے اپنے وسائل میں سے ان کی کفالت کی، انہیں روزگار اور رہائش فراہم کی اور یہ امید کی کہ یہ لوگ امن قائم ہوتے ہی عزت کے ساتھ اپنے وطن لوٹ جائیں گے۔ تاہم جب انہی مہمانوں کی میں سے ہمارے فوجیوں اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کی گئیں اور شواہد نے دکھا دیا کہ ان کارروائیوں میں افغانی نژاد عناصر ملوث پائے گئے ہیں، تو ریاست کا اولین فرض اپنے شہریوں کا تحفظ بن جاتا ہے۔
اس پس منظر میں یہ حقیقت واضح کی جانی چاہیے کہ پاکستان نےکسی بھی بین الاقوامی کنونشن (Convention on Refugees, 1951) یا اس کے 1967 کے پروٹوکول پرآج تک دستخط نہیں کئے اور یہاں کے پناہ گزینوں کا معاملہ پاکستان کے اپنے قوانین، مثلاً Foreigners Act, 1946 کے مطابق طے ہوتا ہے۔ یہ بات اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (UNHCR) کی معلومات میں بھی درج ہے۔
پاکستان قانونی طور پر پابند نہیں کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو ہمیشہ کے لیے رکھے۔ ہر خودمختار ریاست کو یہ حق حاصل ہوتاہے کہ وہ اپنے داخلے، قیام اور غیر ملکیوں کے اخراج کے معاملات خود طے کرے۔ مگر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ملک کی قومی سلامتی اور عوامی مفادات سب سے پہلے مقدم ہوتے ہیں اور اگر کوئی فرد یا گروہ سیکیورٹی رسک ثابت ہوتا ہے تو اسے واپس بھیجنے کے لیے ریاست کا قانونی اختیار موجود ہے۔
موجودہ تناظر میں صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت، سرحد پار سے دہشت گردی کی پشت پناہی اور ان واقعات کے پس منظر میں بھارت کے ساتھ افغان حکام کے بڑھتے تعلقات اس خدشے کو تقویت دیتے ہیں کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر موجود یہ مہاجرین اب صرف "مہمان” نہیں رہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بن چکے ہیں۔
1979 کے سوویت حملے سے لے کر آج تک پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کی نسلوں کو تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات فراہم کیں۔ بدلے میں کیا ملا؟ دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ، اسلحہ اور بدامنی! پاکستانی انٹیلی جنس رپورٹس اور خبروں کے مطابق پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں افغانی ملوث ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان کی نفرت کھلے عام نظر آ رہی ہے ، پاک فوج اور پاکستان کے خلاف زہریلے پیغامات، جہاں وہ بھارتی پروپیگنڈے کی بازگشت کر رہے ہیں۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں میں بھی افغان حملوں کے پیچھے بھارتی ہتھیاروں اور را کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ پاکستان نے افغانیوں کو کھلایا، ان کی اولاد پالی، مگر اب یہی لوگ تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) جیسے دہشت گرد گروہوں کو پناہ دیتے ہیں اور پاکستان میں خودکش حملے کرتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ برسوں سے شکایات موجود ہیں کہ افغان مہاجر کیمپ اور شہری آبادیوں میں رہائش پذیر رجسٹر اورغیر رجسٹرڈ افغانی پاکستان میں دہشت گردی، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ جیسے غیر قانونی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے بارہا یہ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ ملک میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد میں افغان سرزمین اور پاکستان میں مقیم بعض افغان باشندوں کا کردار شامل رہا ہے۔
بعض افغان مہاجرین کا براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ان گروہوں کی مدد کرنا جنہوں نے پاکستان پر حملہ کیا، کسی بھی میزبان ملک کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ یہ مہاجرین اب "مہمان” نہیں رہے بلکہ اب یہ پاکستان کے کھلےدشمن بن چکے ہیں۔ بھارت جو ہمیشہ سے پاکستان کا ازلی دشمن ہے، اب افغان حکومت اور اس کے مہاجرین کو اپنا آلۂ کار بنا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پاکستانی عوام اور پاک فوج کے خلاف افغان باشندوں کی جانب سے نفرت انگیز مواد شیئر کیا جاتا ہےاور کیا جارہا ہے۔ ایسے افراد جو پاکستان میں رہتے ہیں، اس کا کھاتے ہیں اور پھر اسی کے خلاف زہر اگلتے ہیں، کسی بھی صورت مہمان نوازی کے حقدار نہیں سمجھے جا سکتے۔ ان کا عمل واضح طور پر دشمن کے ایما پر قومی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
ایک حالیہ ایکس (ٹویٹر)کی پوسٹوں میں دیکھا گیا کہ سرحدی تنازعات اور فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دی جا رہی ہے، جو تقسیم کی سازش کا حصہ ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی نے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان کی معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس کی نوجوان نسل بھی تباہ ہو رہی ہے۔
یہ اسمگلنگ نہ صرف اقتصادی طور پر نقصان دہ ہے بلکہ دہشت گردی کو فنڈنگ بھی فراہم کرتی ہے، جیسا کہ بین الاقوامی رپورٹس میں درج ہے کہ طالبان اور دہشت گرد گروہ منشیات کی تجارت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ مہاجرین پاکستان کی کمر توڑنے والے "مہمان” بن چکے ہیں۔
1979 سے اب تک ان افغان مہاجرین نے پاکستان کا کھایا اور اب پاکستان کی ازلی دشمن بھارت کے ایما پر پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اب اچھے برے کی تمیز کیے بغیر ان افغان باشندوں سے پاکستان کو پاک کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جب افغان نہیں ہوں گے تو دہشت گردی، منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ خود بخود ختم ہو جائے گی۔
پاکستان اور پاکستانی قوم اب مزید ان افغانوں کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ جب کسی مہمان کی وفاداری پر سوال اٹھ جائے اور اس کا عمل میزبان کے مفادات کو نقصان پہنچانے لگے، تو مہمان نوازی کا فلسفہ ختم ہو جاتا ہے۔ افغان باشندوں کی پاکستان سے واپسی کے بعد دہشت گردی، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس خود بخود کمزور پڑ جائیں گے۔
داخلی سلامتی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی اور پاک فوج اپنی توجہ صرف سرحدوں کے دفاع پر مرکوز کر سکے گی۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ داخلی اور خارجی خطرات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور افغان مہاجرین کی موجودگی انہیں مزید پیچیدہ بناتی ہے۔
دہائیوں سے افغان مہاجرین پاکستان کے محدود وسائل پر بوجھ ہیں۔ ان کی واپسی سے ملکی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا اور پاکستانی عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ نہ صرف مالی بوجھ کم کرے گا بلکہ سمگلنگ نیٹ ورکس کی کمر توڑ دے گا جو پاکستان کی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔
کسی بھی ملک کے لیے اس کی قومی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ پاکستان نے جتنا بڑا دل دکھایا ہے، اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ لیکن اگر یہ مہمان اپنے میزبان کے ازلی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کر اسی کے خلاف کارروائیاں کریں تو یہ عمل ناقابلِ معافی ہے۔ افغان عوام کی مدد اور ہمدردی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب وقت ہے "سب سے پہلے پاکستان” کے اصول پر عمل کیا جائے۔
یہ ایک سخت لیکن قومی مفاد میں ناگزیر فیصلہ ہے جو پاکستان کو بحفاظت آگے لے جا سکتا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر تمام افغان باشندوں کی رجسٹریشن ختم کر کے انہیں سرحد پار دھکیلنا چاہیے اور یہ افغانی کسی قسم کی مزید رعائت کے حقدار نہیں ہیں ۔ پاک فوج اور حکومت، پاکستان کو افغان باشندوں سے پاک کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں امن، عزت اور خوشحالی کے ساتھ جی سکیں!