ارطغرل کے اسلام پر سوال اٹھانے والے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر کی تحقیق کا جواب ، شاہ رخ خان

جب کبھی اسلام پر حملہ مقصود ہو تو اسلامی شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب وہ روافض کے صحابہ پر الزامات ہو، یا کسی بھی اسلامی تاریخی شخصیت کے کردار پر اتھامات جیسے محمد بن قسم کا حال ہی کا واقعہ۔

ہمیشہ اس شخص کو کہ جسکی اسلام کے بارے مین بہت سی خدمات رہی ہو اس پر مختلف اعتراضات کر کے مسلمانوں میں انتشار پھیلایا جاتا ہے۔

حال ہی میں ترکی سے نشر ہونے والے ایک ڈرامے کی مرکزی کردار سلطان ارطغرل بن سلیمان شاہ کے اسلام کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور دراصل یہ کاروائی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی کچھ غیر مسلموں کی جانگ سے ایسی کوششیں کی گئی ہے۔

اس میں سب سے زیادہ نام پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک پروفیسر کا سامنے آرہا ہے جنکا ایک کالم اسوت انٹرنیٹ پر گردش کر رہا ہے، موصوف نے کچھ مسشرقین اور ایک برصغیری کے مورخ ڈاکٹر محمد عزیر کی دو جلدوں پر مشتمل ’دولتِ عثمانیہ‘کی کتاب کو اپنے مدعی کا مرجع و ماخذ بنایا ہے۔

کیا ارطغرل مسلمان تھا ؟ پروفیسر ڈاکٹر فراز انجم شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی کی تحقیق

اب آئیے قدیم مسلمان مورخ کی جانب:

دمشق کے ثقہ عالم ِدین، قاضی اور مورخ شیخ احمد بن یوسف قرمانی رحمہ اللہ، جنکی وفات: 1019 ھجری بمطابق 1610 عیسیوی میں ہوئی، چنانچہ وہ اپنی کتاب:
اخبار الدول و آثار الاول فی التاریخ: ج 3، ص 6،7 پر سلیمان شاہ کا ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے سلطان علاء الدین سے مل کر تاتاری اور دیگر کفار کے خلاف لڑائی کی اور انکی وفات کے بعد انکے بیٹے ارطغرل نے اسی طرح سلطان علاء الدین کے ساتھ مل کر کفار کے خلاف جہاد کیا اور کئی علاقے فتح کیئے یہاں تک اللہ کے راستے میںلڑتے ہوئے ہی وفات پائی۔ جب سلطان کو انکی وفات کا علم ہوا تو سلطان علاء الدین نے افسوس کا اظھار کیا اور انکے بیٹے عثمان کو انکی جائے گا مقرر کیا۔

عربی الفاظ نیچے دیئے گئے اسکرین شاٹ میں دیکھیں، یہاں احمد قربانی ارطغرل کو کفار کے خلاف جہاد کرنے والا، مال ِ غنیمت حاصل کرنے والا، اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے دنیا سے رخصت ہونے والا کہہ رہے ہیں جو انکے نزدیک ارطغل کے نا صرگ مسلمان ہونے کی دلیل ہے بلکہ ایک نیک صالح مجاھد ہونے کی بھی دلیل ہے۔


اسی طرح معروف مصری مورخ محمد بن محمد بن أبى السرور البكرى (المتوفی: 1650 ع) اپنی کتاب منح الرحامنیة فی الدولة العثمانیة میں لکھتے ہیں کہ سلیمان شاہ کے چار بیٹے تھے جن میں سے دو نے عجم کا رخ کرلیا اور دو سلطان علاء الدین کے پاس آکر ان سے اجازت مانگ کر انکے علاقے مین رہنے گے، نیز انکی اجازت سے کفار کے خلاف جہاد کرنے میں مصروف ہوگئے یہاں تک کہ اسی مصروفیت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

انہوں نے بھی ارطغرل کے لیئے جہاد اور کفار کے خلاد جنگوں کے الفاظ استعمال کیئے ہیں انکی کتاب کے مخطوطے کا عکس نشانات کے ساتھ پوسٹ میں ملاحظہ کیجیئے۔

اسی طرح ایک تونسی مورخ حسین خوجة اپنی کتاب بشائر اهل الايمان بفتوحات ال عثمان نے بھی اپنی کتاب میں ارطغرل کا ایسا ہی تذکرہ کیا ہے۔ انکی وفات: 1145 ھجری میں ہوئی۔

جس سے ثابت ہوا کہ ارطغرل رحمہ اللہ کو مسلمان مورخین نے جنکا تعلق بھی مختلف علاقوں سے تھا، انہوں نے ارطغرل کو اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا نیک مسلمان بتایا ہے۔ نیز کچھ قرائن جیسے:
اپنے بیٹے کا نام عثمان رکھنا، مسلمانوں کے ساتھ مل کر مسلسل تاتاریوں سے اور صلیبی کفار سے لڑکر مختلف علاقہ جات آزاد کروانا، انلے بیٹے کا خلافت قائم کرنا اور اپنی باپ کو خراج ِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی سلطنت کے سکوں پر انکی تصویر نقش کروانا۔ آج تک غازی ارطغرل کے نام سے معروف ہیں اور انکا مقبرہ بھی معروف ہے۔

یہ سب ثابت کرتا ہے ہے کہ ارطغرل ایک عظیم مجاھد تھے، جنکے بیٹے نے ان سے متاثر ہوکر باقاعدہ اسلامی سلطنت کا قیام کیا اور اپنے والد کو یاد رکھنے کے لیئے انکا ذکر تمام کرنسی پر عام کردیا۔ نیز تواتر سے مختلف اسلامی ادیب اور مورخین کے ہاں ارطغرل کو ایک نیک مرد مجاھد کے نام سے ہی یاد کیا جاتا را ہے۔ علامہ اقبال کے دور کے بعض اردو مضامین جن میں ارطغرل رحمہ اللہ کا تذکرہ ہے اس میں بھی انہیں ذکر ِ کیر سے ہی یاد کیا گیا ہے۔

ارطغرل کے مسلمان نا ہونے کا شوشہ سب سے پہلے ایک امریکی جرنلسٹ
Herbert Adams Gibbons نے اپنی کتاب foundation of the Ottoman empire میں چھوڑا پھر اسکو تقویت Cambridge History of Turkey نامی کتاب میں دی گئی جسکی طباعت غالبا 2006 میں ہوئی ہے۔

اور برصغیر کے ایک مسلمان مورخ ڈاکٹر محمد عزیر صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب دولت ِ عثمانیہ میں اس طرح کا خدشہ ظاھر کیا ہے۔ یہ کتاب تقریاب 1358 ھجری بمطابق 1939 عیسوی میں لکھی گئی اور افسوس کے ساتھ اس میں بھی امریکی جرنلسٹ Herbert Adams Gibbons کے پراپیگنڈے کو دہرایہ گیا اور تحقیق سے کام نا لیا گیا۔ یاد رہے Herbert Adams Gibbons ایک متعصب مصنف ثابت ہوا جس نے سلطنت عثامنیہ پر بہت سے الزامات بھی گائے ہے اور اپنی حسد کا اظھار کیا ہے جسکی مختلف اوقات میں اھل ترک کی جانب سی کی جاتی رہی ہیں۔ جبکہ قدیم مسلمان مورخین جنکی تاریخ ان سے تقریبا ڈیرھ دو صدیاں قبل کی لکھی گئی ہیں، انہوں نے ارطغرل کو مجاھد ِ اسلام کے طور سے درج کیا ہے۔

اگر آپ لبرل نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ کی ارطغرل ڈرامے کی مقبلویت صرف اسا لیئے برداشت نہین ہورہی کہ آپ سعودیہ کی محبت میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو یاد رکھے کہ کسی بھی مسلمان کو کافر ثابت کرنا آپ کی عاقبت برباد کرسکا ہے نیز آپ کی طیب اردگان سے لڑائی میں دولت ِ عثمانیہ کا کوئی قصور نہیں بلکہ وہ تو مسلمانوں کی مشترکہ میراث اور اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت باب ہے۔

ارطغرل غازی کی مقبولیت، وائس آف پاکستان نے آن لائن تقریری مقابلے کا اعلان کردیا

ارطغرل غازی سیریز میں یہ چار چیزیں نہ سیکھیں تو کچھ نہیں سیکھا

ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں یہ ہمارا دوست اور بھائی ملک ہے تُرک اداکار

Shares: