پچھلے سال 14 اگست کو میں ایک دوست کے پاس گیا اس کے 86 سالہ دادا جی حیات ہیں
مجھے دیکھ کر کہنے لگا پتر کتھے چلے او ؟ یعنی کہا جا رہے ہو میں نے جواب دیا بابا جی واہگہ بارڈر پر پریڈ دیکھنے جانا ہیں تو وہ بزرگ آہ بھر کے کہنا لگا سلنسر کڈ کے گون گا کے منانا اے آزادی ؟ پتہ وی او کینج لئی سے اساں آزادی؟ یعنی کہ موٹر سائیکل کا سائلنسر نکال کر اور ناچ گا کر آزادی مناتے ہو پتہ بھی ہے تمہیں کیسے ملی تھی آزادی ؟ میں نے کہا نہیں بابا جی آپ بتا دیجئے تو وہ بتانے لگا کہ
اس کا دادا گاؤں کا چوہدری تھا ان کا گاؤں کھیم کرن کے پاس تھا اور وہ 4 مربع زمین کے مالک تھے اس کے دو چچا اور پانچ پھوپھیاں تھیں جو کہ سب شادی شدہ ہی تھے وہ خود دادا کی اولاد میں سب سے بڑا تھا اور آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا اسے قائد اعظم بڑے اچھے لگتے تھے اس کی کہانی سنتے ہیں اسی کی زبانی
میرا نام کرم دین ہے اور میں اپنے دادا کی اولاد میں سب سے بڑا تھا میری دادی اماں میری پیدائش سے چھ ماہ پہلے وفات پا گئی تھیں میرے دادا جی چوہدری تھے ہمارے گاؤں میں سکھ اور ہندوں سبھی ان کی بہت عزت کرتے تھے خود میرے ساتھ سکول میں سکھ و ہندو لڑکے مل کر کھانا کھاتے تھے مگر پھر بھی میرا کھانا کھانے کے باوجود وہ مجھ سے کھینچے کھینچے سے رہتے تھے اور ہر وقت او مسلے او مسلے پکارتے تھے جو کہ مجھے بڑا ناگوار گزرتا تھا
یہ جنوری 1947 کی بات کے حالات معمول سے ہٹ کر خراب ہو رہے تھے سکول میں بھی ہندو و سکھ لڑکوں کا رویہ مجھ سے عجیب سا ہو گیا تھا حالانکہ میں نے کبھی یہ نعرہ نا لگایا تھا کہ، بٹ کے رہے گا ہندوستان ،بن کے رہے گا پاکستان مگر پھر بھی نا جانے کیوں وہ مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے تھے حالانکہ ہمارے نذر بیگ ماسٹر صاحب سب بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور کسی کو بھی ہندو ،سکھ اور مسلمان ہونے پر جدا نا سمجھتے تھے خیر وقت گزرتا گیا اور جولائی کا مہینہ شروع ہو گیا ہر طرف بٹ کے رہے گا ہندوستان،بن کے رہے گا پاکستان کے نعرے گونجتے تھے میں نے دادا جی سے پوچھا لالہ جی ( دادا جی کو کہتا تھا) یہ کیا چکر ہے بٹوراہ کیوں ہوگا تو لالہ جی کہنے لگے بیٹا دیکھ میرے تین بیٹے ہیں تیرا باب اور دو تیرے چچا تو جیسے جیسے شادیاں ہوتی گئیں بٹوارہ ہوتا گیا اب تمہاری ماں الگ سے روٹی پکاتی ہے تمہاری چچیاں الگ سے پکاتی ہیں میرا دل جہاں سے کرتا ہے میں وہاں سے کھا لیتا ہوں اسے کہتے ہیں بٹوارہ تو ہو جائے کیا فرق پڑتا ہے ہمیں تو رہنا ہی ہے نا رہ لینگے پر میں نے کہا لالہ جی میں نہیں جاؤنگا اپنا گاؤں اپنے دوست چھوڑ کر لالہ جی نے سینے سے لگا لیا
مجھے یاد ہے جس دن میری لالہ جی سے یہ بات چیت ہوئی اسی دن میرے ابو جسے میں ابا جی کہتا تھا اپنے ساتھ اپنے ماموں زاد بھائی شمشیر کو لے کر
تایا شمشیر میرے ابو سے بڑے تھے میں انہیں تاؤ کہتا تھا
تاؤ لالہ جی کے پاس بیٹھ گئے اور کہنے لگے بابا جی ( لالہ جی کو سب بابا جی کہتے تھے) حالات بہت خراب ہیں کچھ کرنا پڑے گا ہمیں یہ علاقہ چھوڑ کر پاکستان جانا پڑے گا
لالہ جی کہنے لگے اوئے جلے میں چوہدری ہوں سکھ ہندو میری ہاں میں ہاں ملاتے ہیں مجھے کیا ضرورت پڑی ہے اپنا گاؤں چھوڑ کر بھاگنے کی
تو تاؤ کہنے لگے آپ کو علم ہی نہیں حالات کس قدر خراب ہیں کوئی کسی کا نہیں بن رہا لہذہ عزت بچا کر نکلنے میں ہی فائدہ ہے پورے ہند کے قصے آپ نے سن لئے ہیں تو دیر نا کیجئے کافی تو تکار کے بعد لالہ جی روتے ہوئے ہامی بھر بیٹھے طے ہوا پرسوں 31 جولائی کی رات کو نکلا جائے گا تب تک قریبی دیہات سے پھوپھیاں اور خاندان سے دیگر افراد بھی آ جائیں گے کیونکہ لالہ جی کا اثرورسوخ کافی تھا دوسرا ہمارے گھر میں اناج وافر تھا لالہ جیں کے پاس ایک نالی بندوق اور میرے والد کے پاس ریوالور بھی تھا
31 جولائی کو شام تک سب پہنچ گئے سوائے گاؤں موضع سری ساون کی رہائشی پھوپھو حاجراں اور ان کے سسرال کے علاوہ
سو مجبوری کے طور پر ہم نے دو بیل گاڑیاں تیار کیں اناج لادا گھروں کو تالے لگائے اور نکل کھڑے ہوئے ابھی گھر سے نکل ہی رہے تھے کہ راموں جو ہمارے گھر کا خاص ملازم تھا گالیاں بکنے لگا او مسلے ڈر کر بھاگنے لگے ابھی مزا چکھاتا ہوں
لالہ جی نے کہا راموں تو بھول گیا میرے احسان تیری بہن کی شادی میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی جیب سے کی تھی تو راموں کہنے لگا او مسلے ہند ہمارا ہے تونے کونسا احسان کیا ہے اتنا کہتے ہی راموں چلانے لگا اور کھڑے سیاں (کھڑک سنکھ ) اور فلاں اوئے فلاں مسلے بھاگ رہے ہیں
لالہ جی اور ابا جی نے گھر کے کل 41 افراد بمعہ بچے بوڑھے جوان کو دلاسہ دیا مردوں اور عورتوں کو بیل گاڑیوں پر بٹھایا اور اپنی بندوق تان کر بیل گاڑی کے آگے جبکہ میرے والد ریوالور لے کر بیل گاڑیوں کے پیچھے پیچھے چل دیئے رات کی تاریکی تھی ابھی ہم چار منٹ ہی چلے ہونگے کہ شور سنائی دیا جے سری رام،ست سری اکال کی بلند و بالا آوازیں آنے لگیں لالہ جی نے کہا گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے آوازیں قریب تر ہوتی گئیں آخر لالہ جی نے نعرہ تکبیر لگایا اور فائر کر دیا اسی اثناء میں ابو جی نے بھی دو فائر کئے شور رک گیا بڑھتی ہوئی آوازیں تھم گئیں سب سہم گئے تھے لالہ جی نے سب کو دلاسہ دیا اور میرے جیتے جی کسے کا بال بھی بانکا نہیں ہو گا ابو جی سے لالہ جی نے کہا کہ اب فائر نا کرنا میرے پاس بھی کارتوس کم ہیں اور تمہارے پاس گولیاں کم ہیں اور ہمیں سفر لمبا کرنا ہے
رات کی تاریکی تھی سب ڈرے ہوئے تھے پھوپھی سکینہ کا اکلوتا بیٹا بیمار تھا اور بار بار رو رہا تھا تایا شمشیر بھی اپنے بچوں کیساتھ تلوار پکڑے چل رہا تھا خیر ہم چلتے گئے اور دن کا اجالا ہونا شروع میں کچھ ہی دیر رہ گئی آگے ایک سڑک آئی تو میں ج جو کہ لالہ کیساتھ ساتھ چل رہا تھا کسی چیز سے ٹکڑا کر گر پڑا میرے منہ سے آہ نہیں اور قافلہ رک گیا جب دیکھا تو وہ ایک نوجوان عورت کی برہنہ لاش تھی جا کی چھاتی کاٹی ہوئی تھی اور تن ہر کپڑوں کے چیتھڑوں کے کچھ بھی نا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی چن دہی گھنٹے ہوئے ہیں اسے شہید کئے یہ منظر دیکھ کر سب دہل گئے
لالہ جی نے کہا میں اس گاؤں ماڑی کامبوکی سے واقف ہوں یہاں سکھ اور ہندو زیادہ ہیں اور دن کو سفر کرنا خطرناک ہے لہذہ کہیں چھپتے ہیں کچھ فاصلے پر دیسی کماد کی فصل نظر آئی قافلہ اس سمت چل پڑا کماد کی فصل کو اندر سے کاٹا گیا جو کہ کئی ایکڑ پر محیط تھی اور قافلہ عین وسط میں لیجا کر روک دیا گیا گرے کماد کو لالہ جی اور ابو جی نے بڑی مہارت سے کھڑا کرنے کی کوشش کی جو بڑی حد تک کامیاب بھی رہی سب نے تیمم کرکے نماز پڑھی اور ساتھ رکھا کھانا کھانے لگے مگر بے سود شمشیر تایا جو چار پانچ دیسی گھی کی روٹیاں کھا جاتے تھے آدھی سے بھی کم کھا کر کہنے لگے بس سیر ہو گیا ہوں سب کی یہی حالت تھی
رفتہ رفتہ دن کا اجالا تیز ہونے کیساتھ سورج کی تپش بھی تیز ہوتی گئی اور سکینہ خالہ کے بیٹے نے رونا شروع کر دیا سب کہنے لگے اسے چپ کرواؤ مروا دے گا ہمیں بھی
سکھوں ہندؤوں کی آوازیں اور ساتھ کچھ چیخیں بھی آ رہی تھیں سب ڈر بھی رہے تھے اور ذکر خدا بھی کر رہے تھے خیر شام ہو گئی قافلہ نکلا اور سفر شروع کر دیا ابھی چار کوس ہی گئے ہونگے کہ اچانک پچاس ساتھ بلوائیوں کا قافلہ نکلا لالہ جی نے فائر کیا مگر آگے سے چھ سات اکھٹے فائر ہوئے ایک فائر میرے چچا اقبال کو لگا اور ایک فائر تایا شمشیر کی کھوپڑی میں لگا ادھر سے ابو جی نے چار فائر کئے جس سے تین دلدوز چیخیں فضاء میں ابھریں جو کہ بلوائیوں کی تھیں میں بھی جوش میں اللہ اکبر کے نعرے لگا رہا تھا اور اپنی لاٹھی مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا اچانک شور مذید بڑھا اور ہماری سمت آیا ایک گولی لالہ جی کی ران پر لگی اور وہ بھی گر پڑے میں اور دونوں چچا،دو پھوپھے سراج اور اللہ دتہ لاٹھیاں سنبھالے کھڑے تھے بچے اور عورتیں چیخ چلا رہے تھے ایک سکھ میرے قریب آیا میں نے لاٹھی اس کے سینے پر ماری مگر ضرب کاری نا تھی الٹا اس نے کرپان میری طرف ماری جو کہ میری بائیں بازو پر لگی ابا جی نے پھر فائر کئے مگر افسوس ایک سکھ نے ان کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہم بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں سمیت 41 تھے جبکہ کرپانوں،بندوقوں اور چھڑیوں سے لیس بلوائی پچاس سے اوپر تھے میرے لالہ جی،ابو جی،تاؤ شمشیر پھوپھی تڑپ رہے تھے باقی میں بچوں میں سب سے بڑا تھا باقی دو چچا اور دو پھوپھا تھے ہم نے مقابلہ شروع کیا اتنے میں پھوپھی سکینہ کی آواز آئی میرا لال علی شیر دے دو ایک ظالم نے شیر خوار علی شیر کو نیزے پر رکھا اور دو ٹکڑے کر دیا جبکہ میری پھپھو سکینہ کو پکڑنے لگے تو پھوپھا جی نے اپنا سینہ آگے کر دیا ایک گولی آئی اور پھوپھا کے سینے میں لگی اور وہ گر پڑے چچا جی آگے بڑھے کرپان ان کے پیٹ کے پاڑ ہو گئی اتنے میں ایک اور شور ہمارے قریب آیا اور نعرہ تقریب بلند ہوا چند جوان جن کے پاس آٹومیٹک رائفلیں تھیں انہوں نے دو بلوائیوں کو نشانہ بنایا باقی بلوائی بھاگ نکلے انہوں نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا اور بولے پریشان نا ہو ہر سمت یہی صورتحال ہے ہم آپ کو واہگہ پہنچائینگے
زخمیوں میں سے صرف میں اور چھوٹے چچا اور بڑا پھوپا جی ںچے باقی پھوپھو سکینہ پھوپا جی کو گولتی لگتے ہی دار فانی سے کوچ کر گئیں تھیں کل 41 میں سے میں دو چچا ایک چچی دو ننھے بچے اور ایک مجھ سے دو سال چھوٹی تاؤ شمشیر کی بیٹی بچی باقی سب انتہائی گہرے زخموں کی بدولت جان ہار بیٹھے تھے چچاؤں نے لالہ جی کی بندوق اور ابو جی کا پستول اٹھایا جبکہ میں نے تاؤ شمشیر کی چھری
شہداء پر نظر ڈال کر قافلہ چل پڑا دو کے بجائے ایک بیل گاڑی ہو گئی اور واہگہ بھی انتہائی کم رہ گیا تھا سو اگلی صبح تک واہگہ مہاجر کیمپ پہنچے راستے میں ہر طرف خون ہی خون تھا اور کٹی پھٹی لاشیں خاص کر شیر خوار بچوں اور عورتوں کی جا بجا لاشیں پڑیں تھیں
اتنا سنانے کے بعد بابا جی کرم دین جن کے اب دانت بھی سلامت نہیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کنے لگے
پتر کی منہ وکھاؤ گے قائد ت اقبال نو ؟
یعنی بیٹے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو جشن آزادی کے نام پر ہلڑ بازی پر کیا منہ دکھاؤ گے
میں یہ سن کہ ہلکا سا رونے لگا اور اپنے دوست امان اللہ کا انتظار کئے بنا نکل آیا اور گھر جا کر سوچنے لگا یہ تو جشن آزادی نہیں ،یہ تو قائد و اقبال اور ان کے رفقاء کا طریقہ نہیں

ایسے ملی تھی آزادی!!! از قلم: غنی محمود قصوری
Shares: