یورپ کے خواب اور موت کے راستے، ذمہ دار کون؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
آج صبح جب ایک نیوز چینل کی ویب سائٹ کھولی تو صفحۂ اول پر ایک دلخراش خبر موجود تھی، جس کے مطابق یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 5 افراد ہلاک ، 40 لاپتہ ہو گئے اور اور 39 کو بچا لیا گیا ، کشتی میں سوار زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان سے تھاجو بہتر زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ حادثہ ان المناک کہانیوں کی ایک کڑی ہے جو ہر سال سینکڑوں پاکستانی خاندانوں کو غم میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے گذشتہ سال بھی اٹلی کے قریب کشتی الٹنے کے المناک حادثے میں 30 سے زائد پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس حادثے کے بعد بھی پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد خطرناک راستے اختیار کرنے سے باز نہیں آئی۔ انسانی اسمگلنگ مافیا کے جھوٹے وعدے اور بہتر مستقبل کی جھوٹی امیدیں نوجوانوں کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں جو ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

پاکستانی نوجوانوں کے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے رجحان کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے ملک میں بے روزگاری کی شدت ہے۔ معیشت کی سست رفتاری اور روزگار کے محدود مواقع نوجوانوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح بہتر زندگی کی تلاش میں نکلیں۔ غربت اور معاشی بدحالی ان کے فیصلے پر مزید دباؤ ڈالتی ہیں کیونکہ خاندان کی کفالت کے لیے وہ کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

تعلیم اور مہارت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مناسب تعلیم اور ہنر کی عدم موجودگی کی وجہ سے نوجوان قانونی ذرائع سے بیرون ملک جانے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہنر اور تعلیم کے بغیر کسی بھی ملک میں بہتر زندگی حاصل کرنا ایک خواب ہی رہ جاتا ہے۔

یورپ کے بارے میں پھیلائے گئے غلط تصورات بھی اس المیہ کی ایک بڑی وجہ ہیں کیونکہ نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یورپ میں سب کچھ آسان اور پرتعیش ہے۔ اس خیالی جنت کا خواب دیکھتے ہوئے وہ انسانی اسمگلنگ مافیا کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ اسمگلرز انہیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ محفوظ طریقے سے انہیں یورپ پہنچا دیں گے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

معاشرتی دباؤ بھی ان فیصلوں کو مزید تقویت دیتا ہے۔ خاندان اور معاشرت کی جانب سے زیادہ پیسے کمانے اور معیارِ زندگی بلند کرنے کا دباؤ نوجوانوں کو ان خطرناک راستوں پر چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ قانونی سفری ذرائع کی مشکلات اور کرپشن نوجوانوں کو غیر قانونی ذرائع اپنانے پر مجبور کرتی ہیں۔

ملکی نظام پر عدم اعتماد اور سماجی مساوات کی کمی بھی اس مسئلے کو گمبھیر بناتی ہیں۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور امیر و غریب کے درمیان فرق نوجوانوں میں مایوسی کو بڑھا دیتا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی خراب صورتحال نوجوانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان کے مسائل کا واحد حل بیرون ملک جانا ہے۔

اس صورتحال کی شدت کا اندازہ خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم کے حالیہ بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں 18 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ صنعتی ترقی صفر فیصد ہے اور بیرونی سرمایہ کاری تاریخی طور پر کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ان وجوہات کے تدارک کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے صنعتی اور تجارتی منصوبوں میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔ معیاری تعلیم اور مہارت کے پروگراموں کا انعقاد نوجوانوں کو قانونی طریقے سے آگے بڑھنے کے لیے تیار کر سکتا ہے۔

قانونی سفری سہولیات کو آسان اور شفاف بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو غیر قانونی ہجرت کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے شعور بیدار کرنے کی مہمات چلائی جانی چاہییں۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ایسے مافیا کے خلاف ایف آئی اے کو مزید متحرک کیا جائے۔

معاشی مساوات کو فروغ دینے کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو اپنے ملک میں ہی بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے سیاسی اور سماجی استحکام پر کام کرنا ہوگا۔ یہ سب اقدامات اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنی جانیں خطرے میں نہ ڈالیں۔

یہ المناک حادثے اور ان کی بڑھتی ہوئی تعداد ہماری اجتماعی ناکامی کی عکاس ہیں، یورپ کے ان پرخطر راستوں پر چلنے والے نوجوانوں کے خوابوں کے پیچھے بے روزگاری، غربت اور ناکام حکومتی پالیسیاں ہیں جبکہ انسانی اسمگلنگ مافیا ان کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت، معاشرہ اور خاندان مل کر اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔ نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور قانونی مواقع فراہم کیے بغیر ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا ممکن نہیں۔

اگرحکومت نے اس مسئلے کا حل تلاش نہ کیا تو یہ المیے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو مزید کمزور کریں گے۔ لہٰذا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے نوجوانوں کے مسائل کو حل کرے اور نوجوانوں کو ان کی منزل تک پہنچنے کے لیے محفوظ اور قانونی راستے فراہم کرے۔

Shares: