لاہور:گورنرپنجاب نے جواعتماد کو ووٹ لینے کا کہا ہے اس کی آئینی طور پر کوئی حیثیت نہیں ،اسپیکر پنجاب اسمبلی نے انکشاف کیا ہے کہ پہلے گورنر کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک کا لیٹر ملا اورپھر گورنر کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا پیغام بھی آگیا ،
اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے انکشاف کیا کہ جن وجوہات کی بنیاد پر گورنرپنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے ان وجوہات کا وجود ہی نہیں ، پنجاب میں آئینی بحران کے حوالے سے گفتگو کرتےہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے بڑے دلچسپ انکشافات کیے ہیں،
https://www.youtube.com/watch?v=Aupo1yumN0Y
سینیئرصحافی مبشرلقمان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سبطین خان کا کہنا تھاکہ جن وجوہات کی بنیاد پر گورنر نے اجلاس بلایا ہے ان میں پہلی وجہ یہ بیان کی گئی ہےیہ چونکہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان اب معاملات درست نہیں ہیں ، دونوں ق لیگ کے مرکزی رہنما ہیں اس لیے اب چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کو ووٹ لینا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ق لیگ ان کے ساتھ کھڑی ہے،سبطین خان نے انکشاف کرتےہوئے کہا کہ کل سب نے دیکھ لیا کہ ق لیگ کے تمام دس کے دس ارکان صوبائی اسمبلی نے چوہدری پرویز الہی پر اعتماد کا بھرپور اظہارکردکھایا،
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے سنیئرصحافی مبشرلقمان کو گورنر کی طرف سے بھیجی گئی ریکوزیشن کی دوسری خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ فیصل آباد سے ایک صوبائی وزیرہیں جن کی وزارت پر عمران خان خوش نہیں ہیں، اس لیے چوہدری پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیں، اس کا جواب دیتے ہوئے اسپیکرسطبین خان نے کہا کہ اس جگہ پر بھی گورنر پنجاب کو غلطی لگی ، آئینی اور اخلاقی طور پر اس صوبائی وزیرکو کوئی تحفظات ہیں تو وہ چوہدری پرویزالٰہی سے بیان کریں،کابینہ میںاپنا مسئلہ رکھیں گورنر تو مجاز نہیں کہ وہ اس قسم کے مسائل کو ڈیل کریں، یہ پارٹی کا مسئلہ ہے ،پہلے پارٹی سربراہ یا وزیراعلیٰ سے اپنا مسئلہ بیان کریں ، گورنرکسی پارٹی کے اندرونی معاملات کونہیں چھیر سکتے
https://www.youtube.com/watch?v=Aupo1yumN0Y
اسپیکر سطبین خان نے کہا کہ تیسرا جواز پیش کیا گیاکہ چونکہ کابینہ اجلاس میں ایک صوبائی وزیرحسنین دریشک اور وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان گرما گرمی ہوگئی تھی اور حسنین دریشک کو چوہدری پرویز الٰہی سے شکوہ تھا ، اس لیے اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہے ، اس کو جواب دیتے ہوئے اسپیکر سبطین خان نے کہا کہ یہ بھی کایینہ کے اجلاس کے دوران بدمزگی پیدا ہوئی ، جس کا اسی وقت ازالہ ہوگیا تھا ، چوہدری پرویز الٰہی نے معاملہ رفع دفع کردیا
اسیکر سبطین خان نے کہا کہ دوسری دلچسپ کہانی یہ ہے کہ پچھلے دنوں گورنرپنجاب نے ایوان اقبال میں اجلاس بلایا تھا اور ابھی تک وہ اجلاس ریکارڈ پر موجود ہے نیا اجلاس ہی بلایا ، دوسری طرف اس دوران پنجاب اسمبلی میں حکومت کا اجلاس جاری تھی ، وہ اجلاس ختم ہوگیا اور نیا سیشن جاری ہے ، جب تک وہ جاری ہے اس وقت تک گورنر پنجاب نیا اجلاس نہیں بلا سکتے ، یوں یہ سب پہلو ہی غیر آئینی ہیں
سینیئرصحافی مبشرلقمان نے پوچھا کہ اگر گورنر رات کوکچھ کردیں،وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کردیں تو پھر،اس کا جواب دیتے ہوئے اسپیکر سبطین خان نے کہا کہ پھر ملک میں یہی کچھ ہی چلنا ہے توپھرایسے تو صدر گورنر کو ہٹا دیںگے اورپھر ملک میں یہی کچھ رہ جائے گا،
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ چونکہ اب اعتماد کے ووٹ کی ریکوزیشن آچکی ہے اس لیے اب اسمبلی اس معاملے کے بعد تحلیل کردی جائے گی اور یہ یکم جنوری کو بھی ممکن ہے ، کیونکہ گورنر کی طرف سے بھیجے گئے پیغام کےلیے دس دن کا وقت درکار ہوتا ہے ،
سینیئرصحافی مبشرلقمان کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ جمعہ کے دن اجلاس ہوگا ، کنیٹینرز کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ان کو نہیں پتہ کہ کس نے لگائے ہیںمگریہ طئے ہےکہ وہ جمعہ کے دن اسمبلی کا جاری سیشن پھر شروع کریں گے اور اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے معاملات کو آگے بڑھائیں گے
اسپیکر پنجاب اسمبلی کے موقف پر موقف دیتے ہوئےسابق صدرسپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ پنجاب میں واقعی آئینی بحران ہے اگریہ اسمبلی کےفورم پر حل نہ ہوا تو پھر عدالتیں ہی اس کو حل کرسکتیںہی








