تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران فوجی عدالتوں کے ذریعے متعدد سویلین افراد کا ٹرائل کیا گیا اور ان پر سزائیں بھی عمل میں لائی گئیں۔عمران خان نے فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی تو وہیں مراد سعید نے بھی فوجی عدالتوں کے حق میں بیانات دیئے تھے،
2018 سے لے کر 2022 تک فوجی عدالتوں میں ہونے والے سویلین ٹرائلز میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ 2018 میں فوجی عدالتوں میں 25 سویلین افراد کا ٹرائل ہوا، جبکہ 2019 میں یہ تعداد بڑھ کر 61 تک پہنچ گئی۔ 2020 میں 46 سویلین، 2021 میں 36 سویلین اور 2022 میں 12 سویلین افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے سویلین افراد پر مقدمات کا آغاز اور ان کے خلاف سزائیں دی گئیں۔پاکستان میں 1972 سے 2023 تک فوجی عدالتوں میں مجموعی طور پر 1875 سویلین افراد کا ٹرائل ہو چکا ہے اور ان پر مختلف نوعیت کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ ان سزاؤں پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ ان افراد میں دہشت گردی، شدت پسندی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد شامل ہیں جن کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔
اگرچہ فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا مؤثر جواب دینا تھا، مگر ان عدالتوں کے خلاف سیاسی بیان بازی بھی زور پکڑ گئی ہے۔ اس بات پر تنقید کی جاتی ہے کہ فوجی عدالتیں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر سکتی ہیں اور ان کے فیصلے ہمیشہ شفافیت کے معیار پر پورا نہیں اُترتے۔ یہ بات خاص طور پر اہمیت کی حامل ہے کہ جن جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی، وہ خود بھی اپنے دور حکومت میں ان عدالتوں کی حمایت اور استعمال کرتی رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما آج فوجی عدالتوں کے خلاف بیانات دیتے ہیں، مگر ان کے اپنے دور حکومت میں ان عدالتوں کے ذریعے 180 سویلین کا ٹرائل کیا گیا اور ان پر سزائیں بھی عمل میں لائی گئیں۔ اس تناقض پر سوال اٹھتا ہے کہ کس طرح ایک ہی سیاسی جماعت ایک وقت میں فوجی عدالتوں کی حمایت کرتی ہے اور بعد میں ان کے خلاف سخت بیانات دیتی ہے۔
اگر تحریک انصاف اپنے ماضی کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہے کہ "کل ہمارا موقف غلط تھا”، تو شاید اس میں کوئی وزن نظر آ سکتا ہے۔ لیکن جب ایک جماعت اپنے موقف میں واضح تبدیلی لاتی ہے اور اس میں کوئی معقول جواز پیش نہیں کرتی، تو عوامی سطح پر اس کے بیانات کو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں 9 مئی کے دوران ہونے والے ہنگامہ آرائی کے بعد فوجی عدالتوں نے آج ان مجرموں کو سزائیں سنا دی ہیں جنہوں نے پاکستان کی فوجی تنصیبات پر حملے کی کوشش کی تھی۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے موقف پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے ہمیشہ فوجی عدالتوں میں سیاسی رہنماؤں اور سویلینز کے ٹرائل کی حمایت کی تھی، لیکن آج جب ان کی جماعت کے کارکنان کو ان عدالتوں میں سزا ملی ہے تو پارٹی قیادت کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور دیگر رہنماؤں بشمول مراد سعید نے ماضی میں فوجی عدالتوں کے ذریعے سیاسی مخالفین، میڈیا پرسنز اور سویلینز کے ٹرائل کی حمایت کی تھی۔ ان رہنماؤں نے ہمیشہ اس بات کا دفاع کیا تھا کہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال ضروری ہے۔ بانی تحریک انصاف، عمران خان نے بھی اکثر فوجی اداروں کو سپورٹ کیا اور ان کے کردار کو سراہا۔تاہم، 9 مئی کے حملوں کے بعد جب ان کے کارکنوں کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا ہے، تو پی ٹی آئی کی قیادت کی زبان بدل گئی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اس بات کا بار بار اعادہ کیا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے انصاف کا عمل شفاف اور منصفانہ نہیں ہو رہا، جو کہ ان کی سابقہ پوزیشن کے بالکل برعکس ہے۔
9 مئی کے دن پی ٹی آئی کے کارکنوں نے نہ صرف سول حکومت کے خلاف احتجاج کیا بلکہ پاکستان کی فوجی تنصیبات، بشمول آئی ایس آئی کے دفاتر، پر حملے کی کوشش کی۔ ان حملوں کو ملک میں غداری کے مترادف قرار دیا گیا اور فوجی عدالتوں کے ذریعے مجرموں کا ٹرائل کیا گیا۔تاہم پی ٹی آئی نے فوجی عدالتوں کے اس استعمال کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیر منصفانہ ہیں اور ان میں شفافیت کا فقدان ہے۔ پارٹی کی قیادت نے ان عدالتوں کے دائرہ اختیار پر سوالات اٹھائے ہیں، حالانکہ ماضی میں خود انہوں نے ان عدالتوں کی حمایت کی تھی۔
جب ان کے کارکن فوجی عدالتوں میں سزا پا چکے ہیں، تو پی ٹی آئی کی قیادت نے سیاست چمکانے کا آغاز کر دیا ہے۔ تاہم، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو ان کے مشکل وقت میں چھوڑ دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے 9 مئی کے بعد اپنے کارکنوں کو فوجی عدالتوں میں پیش ہونے یا ان کی قانونی مدد کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں دکھایا۔ اس کے برعکس، انہوں نے اپنے کارکنوں کو “سول کپڑوں میں فوجی اور انٹیلی جنس اہلکار” قرار دیا، جو ایک متنازعہ اور بے بنیاد موقف تھا۔پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے حامیوں نے ہمیشہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ پروان چڑھایا تھا۔ بانی پی ٹی آئی اور اس کے ٹرولز نے بار بار پاکستان کی فوج کو میر جعفر اور میر صادق کے طور پر پیش کیا، جس سے نوجوانوں میں فوج کے خلاف نفرت کا جذباتی ماحول پیدا کیا گیا۔ یہ وہ بیانیہ تھا جس کا منطقی نتیجہ 9 مئی کے حملوں کی صورت میں نکلا، جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔
آج، جب فوجی عدالتوں نے ان مجرموں کو سزا سنائی ہے، تو پی ٹی آئی کو ان عدالتوں کے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے ہمیشہ کہا تھا کہ ملک میں امن کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام ضروری ہے، اور آج ان عدالتوں نے اپنے ہی کارکنوں کو سزائیں دی ہیں۔ اب اس پر اعتراض کرنا پی ٹی آئی کے لیے اخلاقی طور پر جائز نہیں ہے۔ اگر پی ٹی آئی اپنے کارکنوں کی فکر کرتی تو اس نے انہیں اس مشکل وقت میں تنہا نہ چھوڑا ہوتا اور ان کے قانونی حقوق کے لیے جنگ کی ہوتی۔
نومئی مجرمان کو سزائیں،عمران خان کا خوف،پی ٹی آئی نے کارکنان کو چھوڑا لاوارث
سانحہ 9 مئی، مزید 60 مجرمان کو سزائیں، حسان نیازی کو 10 برس کی سزا
نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل انکوائری چاہتے ہیں، اسد قیصر
نومئی کے مجرموں کو سزا پر برطانوی ردعمل غیر ضروری
فوجی عدالتوں سے 9 مئی کے مجرمان کوسزائیں، تحریک انصاف کا رد عمل