مشہور گلوکارہ نیرہ نور انتقال کر گئیں ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

0
47

لاہور:وطن کی مٹی گواہ رہنا جیسا شہرہ آفاق ملی نغمہ گانے والی نیرہ نور انتقال کر گئیں، انا لله و انا الیه راجعون، نیرہ نورپاکستان کی ایک معروف شخصیت تھیں جن کا ہرکوئی دل سے احترام کرتا ہے،

نیرہ نور،شمال مشرقی ہندوستان کی ریاست آسام کے گوہاٹی شہرمیں3نومبر 1950کو پیدا ہوئیں۔ یہیں پلی بڑھیں اور بیگم اختر کے نغموں،علی الصبح مقامی مندروں کے لاؤڈ اسپیکر س سے گونجنے والے بھجنوں اور شہر میں منعقد ہونے والے کنسرٹس سے محظوظ ہوتی رہیں۔ پھر کشاںکشاں ان کی آواز اور وجود میں یہ فن لطیف داخل ہوہی گیا۔دوسری جانب نیر ہ کے تجارت پیشہ اہل خانہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی پاکستان ہجرت تحریک پر، آسام سے رخت سفر باندھنا شروع کردیا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ نیرہ کے والد محترم اور چند دیگر اہل خانہ، آل انڈیا مسلم لیگ(اے آئی ایم ایل)کے ممبر اور آسام اکائی کے اہم عہدوں پر فائز تھے۔چنانچہ یہ کارواں پہلے پہل امرتسر واردہوا ،پھر 1958میںوہاں سے سیدھا کراچی پلائن کرگیا۔نیر ہ نور کی گنگناہٹ سب کا دل موہ لیتی تھی ۔ پاکستان میں ریڈیو پاکستان،پاکستان ٹیلی ویژن ،لالی ووڈ فلم انڈسٹری،پاکستان فلمس کارپوریشن جیسے ادارے وجود میں آچکے تھے اور تب تک ان کا مرکزی کراچی ہی تھا۔چنانچہ موقع اور دستور کے مطابق نیرہ نور نے اپنا پہلا نغمہ پی ٹی وی سے ہی نشر کیا ۔

نیرہ کی گلوکارانہ صلاحیتوں کو سب سے پہلے جس شخص اور شخصیت نے دریافت کیا،اس کا نام نامی ہے پرو فیسر اسرار احمد ،جو اس وقت اسلامیہ کالج ،لاہور میں مدرس تھے۔یہ1968کی بات ہے،ایک دن نیرہ نیشنل کالج آف آرٹس،لاہور میں منعقدہ سالانہ ڈنر کے موقع پر اپنی کالج فرینڈس اور اساتذہ میں گھری میڈم نور جہاں،بیگم اختراور ناہید اختر کی آوازوں میںگارہی تھیں۔وہیں پرو فیسر موصوف نے اس جوہر قابل کو پرکھا اور یونیورسٹی آف لاہور کے مرکزی کیمپس میں واقع،ریڈیو پاکستان،لاہور کے اسٹوڈیو لے آئے ۔اب نیر ہ نور کی آواز،ہواکے دوش پر سوار ہو کرکراچی سے خیبر تک،لاہور سے پشاور تک اور اسلام آباد سے گوادر تک پورے ملک میں سُروں کی عطربیزی کرنے لگی۔ پھر محض دوسال بعد ہی انھیں پی ٹی وی،نیشنل اسٹوڈیو ،اسلام آباد سے دعوت نامہ موصول ہوا اور نیرہ کچھ اپنے پروں اور کچھ فن کے پروں پر اڑتی ہوئی’کانسٹی ٹیوشن اوینیو‘ جاپہنچی ۔نیرہ نے پی ٹی وی کے لیے مرزا غالب ،فیض احمد فیض اور احمد فراز کی غزلیں گا کر آواز و ساز عطا کیا ۔اس وقت پی ٹی وی مہدی حسن،احمد رشدی جیسے لیجنڈ اور اساتذہ سے موسوم تھا،نیرہ کو ان کے ساتھ گلوکاری کے مواقع میسر آئے۔

نیرہ نور بہت جلد پاکستان شوبز انڈسٹری کے افق کا ستارہ بن گئی ۔اب وہ ریڈیو اور ٹی وی گلوکاری کے علاوہ فلموں میں بھی پلے بیک دینے لگیں۔ان کی پہلی فلم1973میں کے ۔خورشید کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”گھرانہ“ہے۔جس میںانھوںنے رونا لیلیٰ علی اوراحمد رشدی کے ساتھ ’تیراسایہ جہاں بی ہو سجنا‘نغمہ گایا ۔شائقین و فلم بینوں کی پسند پر وہ اس نغمے کے لیے لالی ووڈ کے باوقار ایوارڈ”نگار ایوارڈ “ سے سرفرازکی گئیں،علاوہ ازیں انھیں تین مرتبہ ”آل پاکستان میوزیکل کانفرنس“ کی جانب سے گولڈ میڈل ملے۔لالی ووڈ کے آگے کے سفر میں نیرہ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں’ایم اشرف‘،’روبن گھوش‘،’کمال احمد‘اور ’نثار بزمی‘نے کلیدی کردار اداکیا۔

بہزاد لکھنوی کی غزل ”اے جذبہ دل گر میں چاہوں“اس وقت مراد ِشاعر بنی، جب نیرہ نور نے اسے ارشد محمود کی موسیقی میں پی ٹی وی کے پرو گرام ’سخن ور‘ میں گایا ۔آج بھی نیرہ کے البم’میری پسند‘ کاسب سے بہترین اور زیادہ سناجانے والا نغمہ ہے۔جدید شاعروں کے نائب امام ،ناصر کاظمی کی روح بھی اس وقت مسرت سے جھوم اٹھی جب نیرہ نے ان کی’رنگ برسات نے بھرے کچھ تو‘ اور ’پھر ساون رُت کی پون چلی‘غزلیں گائیں ——- اور اختر شیرانی کے رومان پر رنگ اس و قت چڑھا جب نیرہ نے ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘غزل کو اپنا ساز دروں دیا۔فیض احمد فیض،ابن انشا،تسلیم فاضلی،کلیم عثمانی،مسرور انور وغیرہ دیگر شعرا و سانگ رائٹرس ہیں جنھوں نے نیرہ کے لیے نغمے تحریر کیے اور نیرہ نے انھیں سازو آواز کی روح پھونکی۔

یہ بات کس قدر متاثر کن اور زندگانی ساز ہے کہ حکومت پاکستان کے باوقار اعزاز’صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی۔2005‘کی مالک نیرہ نور، انتہائی سادہ، کم گو اور شرمیلی خاتون ہیں۔ انھوں نے آغاز سے اب تک اپنے مخصوص انداز اور معیار کو قائم رکھاہوا ہے۔ان کے چہرے پر گلوکاری کے وقت بھی کسی قسم کے تاثرات کی جھلک نہ ہوتی تھی اور عام زندگی میں بھی ان کی شرافت و نجابت مثالی تھی۔ان کا ظاہری رکھ رکھاؤ سادگی کی اعلیٰ مثال ہے۔آج بھی پاکستان میں ان کی وہی شخصی قدرو منزلت۔ہاں البتہ 2012کے بعد سے انھوں نے شوبز کی دنیا سے منہ موڑلیا

Leave a reply