فرات پر پہرہ اور امام کا عزم:مکہ سے کربلا تک کا سفر ،3 محرم
تحریر:سید ریاض حسین جاذب
محرم الحرام کی ہر تاریخ اپنے دامن میں قربانی، صبر، اور بیداری کا پیغام لیے ہوئے ہے، مگر جب ہم تین محرم کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو کربلا کی سرزمین پر جاری ظلم و ستم اور امام حسینؑ کی استقامت ہمیں بے اختیار رُلا دیتی ہے۔
یہ وہ دن ہے، جب امام عالی مقامؑ، ان کے اہلِ بیتؑ اور وفادار اصحاب کو عملی طور پر دریائے فرات سے محروم کر دیا گیا اور مظالم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔
امام حسینؑ کا قافلہ مکہ سے روانہ ہوا تو ان کا مقصد واضح تھا: یزید کی بیعت سے انکار، دینِ محمدی ﷺ کی بقا اور امت کو خوابِ غفلت سے جگانا۔
یہ سفر اقتدار یا حکومت کے لیے نہیں بلکہ حق و صداقت کے لیے تھا۔ امامؑ کے ہمراہ اہلِ بیت کے علاوہ وہ جانثار اصحاب بھی تھے جو صبر، وفا، اور قربانی کا استعارہ بنے۔
تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ قافلے کے ہمراہ دو سو سے زائد اونٹوں پر صرف پانی کے مشکیزے لادے گئے تھے تاکہ راستے میں قافلے کے افراد، دیگر مسافروں، جانوروں اور یہاں تک کہ دشمنوں کی پیاس بھی بجھائی جا سکے۔جب حر بن یزید کا لشکر قافلے کے قریب پہنچا تو امام حسینؑ نے نہ صرف انہیں پانی پلایا بلکہ ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا۔ یہ عمل امام کی اعلیٰ ظرفی اور انسان دوستی کو تاریخ میں امر کر گیا۔
افسوس! تین محرم کو وہی امامؑ، جو دشمنوں کو بھی پانی پلاتے تھے، خود اور ان کا قافلہ فرات کے کنارے ہوتے ہوئے بھی پیاسا کر دیا گیا۔
یزیدی لشکر نے دریا پر پہرہ بٹھا دیا تاکہ امامؑ کے خیموں تک ایک قطرہ بھی نہ پہنچ سکے۔
خیموں میں بچوں کی سسکیاں، عورتوں کی بے قراری اور پیاس کی شدت نے قیامت کا منظر پیدا کر دیا، مگر امامؑ نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔
اسی کٹھن گھڑی میں امام حسینؑ نے حضرت زینبؑ کے ہمراہ اپنے دیرینہ دوست اور صحابیٔ رسول ﷺ، حبیب بن مظاہر کو خط لکھا۔
خط کا مضمون سادہ مگر پراثر تھا:
"اے حبیب! میں کربلا میں ہوں، میرا ساتھ دو۔”
حبیب نے خط پڑھتے ہی اپنے قبیلے اور اہلِ خانہ کو چھوڑا اور فوراً امامؑ کی مدد کو روانہ ہو گئے۔
یہ واقعہ امام حسینؑ کی حکمت، روابط اور اعتماد کا مظہر ہے، اور حضرت زینبؑ کی شراکت نے اس لمحے کو روحانی عظمت عطا کی۔
اسی روز امام حسینؑ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
"رات کی تاریکی ہے، تم جا سکتے ہو۔ دشمن صرف مجھے چاہتا ہے، تم پر کوئی جبر نہیں۔”
مگر تمام جانثاروں نے یک زبان ہو کر کہا:
"ہم آپ کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ہم نے آپ کے ساتھ جینا ہے اور آپ کے ساتھ مرنا ہے۔”
یہی وہ لمحہ تھا جب وفا اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
تین محرم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچائی، صبر اور استقامت کی راہ پر چلتے ہوئے پیاس، تکلیف اور قربانی بھی سر بلندی کا باعث بنتی ہے۔
امام حسینؑ نے فرمایا:
"ہم نہ بیعت کریں گے، نہ ظلم تسلیم کریں گے۔ پیاسا مرنا قبول ہے، مگر ذلت کی زندگی ہرگز نہیں۔”
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ باطل کے سامنے جھکنا مومن کا شیوہ نہیں۔
حق پر قائم رہنا مشکل ضرور ہے، مگر یہی قربانی تاریخ میں زندہ رہتی ہے۔
آج جب دنیا ظلم و ناانصافی سے بھری ہوئی ہے، تو تین محرم ہمیں حسینؑ کے راستے کی یاد دلاتی ہے — وہ راستہ جو صبر، قربانی، حق گوئی اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا راستہ ہے۔