خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں واقع چالیار مدرسے میں گزشتہ روز بہیمانہ تشدد کا شکار ہونے والا طالبعلم فرحان زندگی کی بازی ہار گیا،تاہم اب مقتول طالبعلم فرحان کے نانا بخت مند نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دل سوز انکشافات کیے ہیں-
مقتول طالبعلم فرحان کے نانا بخت مند نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دل سوز انکشافات کیے انہوں نے کہا کہ فرحان نے چند روز قبل گھر آ کر بتایا تھا کہ مدر سے کے اساتذہ اس سے جنسی مطالبات کر رہے ہیں اور وہ وہاں مزید تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتا تاہم گھر والوں نے اسے معمولی بہانہ سمجھ کر دوبارہ مدرسے بھیج دیا فرحان کے چچا نے مدرسے جا کر منت کی کہ بچے کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے اور فیس بھی دوگنا دینے کی پیشکش کی مگر چچا کے مدرسے سے نکلتے ہی اسا تذ ہ نے فرحان پر تشدد شروع کر دیا جو بعد میں اس کی جان لے گیا۔
ڈی پی او سوات محمد عمر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ افسوسناک واقعہ پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے کے تحت سامنے آیا، ایف آئی آر میں چار افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن میں سے دو گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ دیگر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ مدرسے کے نو دیگر افراد کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے،تاہم مرکزی ملزم تاحال مفرور ہے-
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار
ڈی پی او کے مطابق مدرسہ غیر قانونی طور پر چل رہا تھا جسے اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ کی کارروائی کے بعد سیل کر دیا گیا ہے پولیس نے مدرسے میں زیر تعلیم تین سو طلبہ کو اپنی تحویل میں لے کر ان کے والدین کے حوالے کر دیا ہے انہوں نے کہا کہ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ ہے اور ہم کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
فرحان کے ہم جماعت ایک عینی شاہد نے بتایا کہ واپسی پر اساتذہ نے فرحان کو شدید مارا اور ایک الگ کمرے میں بھی تشدد جاری رکھا۔ جب اُسے پانی دیا گیا تو اُس نے تھوڑا سا پانی پیا، اپنا سر ساتھی کی گود میں رکھا اور خاموش ہو گیا۔
واقعے کے بعد علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد نے مدرسہ انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا اور کالام و مٹہ جانے والی شاہراہ بند کر دی۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مرکزی ملزم محمد عمر سمیت تمام ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔
جماعتِ اسلامی کا خیبر پختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت کا اعلان








