کسان، ہماری معیشت کا ستون

کسان، ہماری معیشت کا ستون
تحریر:حبیب اللہ خان
کسان ہماری معیشت کا وہ ستون ہیں جس کے بغیر ہمارا معاشی ڈھانچہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔ 18 دسمبر کو “کسان ڈے” مناتے ہوئے ہمیں ان کی محنت اور قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ کسان ڈے ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہماری معیشت کا حقیقی ہیرو کسان ہی ہے، یہ دن نہ صرف کسانوں کے لیے اہم ہے بلکہ ہم سب کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ کسانوں کی محنت اور قربانیوں کے بغیر نہ صرف ہمارے کھانے پینے کا نظام قائم رہ سکتا ہے بلکہ پوری معیشت کا پہیہ بھی نہیں چل سکتا۔

کسان کی زندگی میں چیلنجز کا سامنا ہمیشہ رہتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں، خشک سالی اور پانی کی کمی جیسے مسائل کسان کی محنت کو بار بار آزمائش میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ زمین کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی محنت نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مگر افسوس کہ آج تک کسانوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی محنت کا صحیح معنوں میں اعتراف نہیں کیا گیا۔ کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی، بہتر زرعی آلات اور مناسب تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ زمین کی بہتر دیکھ بھال کے لیے جدید زرعی آلات کی کمی،مہنگائی کھادوں اور زرعی ادویات اور پانی کی کمی جیسے مسائل کسان کے لیے روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

کسان کا سب سے بڑا مسئلہ قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ہے۔ فصلوں کی قیمتیں اتنی کم ہو چکی ہیں کہ کسان نہ صرف اپنے اخراجات پورے نہیں کر پاتا بلکہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جاتا ہے۔ قدرتی آفات کی صورت میں حکومت کی طرف سے دی جانے والی امداد بھی بہت کم اور غیر مؤثر ہوتی ہے۔

کسان کی زندگی میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے لڑتا رہتا ہے۔ اگر کبھی فصلوں کی قیمتوں میں کمی آ جائے یا کسی قدرتی آفت سے فصلوں کا نقصان ہو جائے تو وہ انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے کسانوں کے لیے کسی مؤثر امدادی پالیسی کا فقدان ہے اور اگر امداد مل بھی جائے تو وہ اتنی معمولی ہوتی ہے کہ کسان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کسان نہ صرف زمین کا مالک ہوتا ہے بلکہ وہ پوری قوم کی خوشحالی کا ضامن بھی ہے۔ کسان کی محنت اور قربانیوں کے بغیر ہمارے کھانے پینے کا نظام اور ملکی معیشت بالکل معطل ہو جائے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ ان کو جدید زرعی ٹیکنالوجی، بہتر زرعی آلات، اور مناسب تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی پیداوار کو بہتر بنا سکیں اور عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔ حکومت کو کسانوں کے لیے ایک مضبوط امدادی نظام قائم کرنا چاہیے تاکہ قدرتی آفات یا زرعی بحران کے دوران ان کی زندگی کی مشکلات کم کی جا سکیں۔

کسانوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ قیمتوں کی مناسب نگرانی، زرعی اجناس کی منصفانہ قیمتوں کی ضمانت اور قرضوں کے بوجھ سے نجات کے لیے حکومت کو فوری طور پر مؤثر پالیسیوں کا اعلان کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کسانوں کو زمین کے مالکانہ حقوق، پانی کی فراہمی اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بھی حکومت کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔

ہمیں کسانوں کی محنت کی قدر کرنی چاہیے اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔ ہمیں یقیناً یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر کسان خوشحال ہے تو پورا ملک خوشحال ہے اور اگر کسان کی زندگی میں مشکلات ہیں تو وہ ہماری معیشت کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

کسان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!

Comments are closed.