جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فاٹا انضمام کا فیصلہ درست ثابت نہیں ہوا، قبائلی عوام کا معیارِ زندگی بہتر نہیں ہوا، فاٹا کو ایک الگ صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں موسم تو خوشگوار ہے لیکن سیاسی موسم شدید گرم ہے، جس کی اپنی ہوائیں اور رخ ہوتے ہیں۔انضمام کے بعد قبائلی علاقوں میں بہتری نہیں آئی۔آج وہ لوگ بھی انضمام کے مخالف ہو چکے ہیں جو پہلے حامی تھے۔ہم نے انضمام کی سب سے زیادہ مخالفت کی اور وقت نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کیا۔قبائلی عوام کے سیاسی مستقبل کا سوال ہم نے سب سے پہلے اٹھایا۔
انکا مزید کہنا تھا کہ انضمام کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی شامل نہیں۔فاٹا جرگہ بلایا جائے گا جس سے مشاورت کے بعد کمیٹی کے ارکان کے نام دیے جائیں گے۔فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کی تجویز دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے آئینی ترامیم درکار ہوں گی۔
مولانا کا کہنا تھا کہ نئے صوبے پاکستان کی ضرورت ہیں اور اس سمت میں سنجیدہ غور ہونا چاہیے۔انضمام کو واپس لینے سے قبل اس کے اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔مولانا نے علماء کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ علماء کو شہید کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے، یہ عمل کھلا گناہ ہے۔اللہ مومن کے قتل پر بہت ناراض ہوتا ہے۔
تجز یہ کاروں کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی گفتگو نے فاٹا انضمام کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے، جس پر آئندہ دنوں میں سیاسی حلقوں میں گرما گرم مباحثے کی توقع ہے۔
کوئٹہ اور قلات حملے: سی ٹی ڈی نے دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر لیے
اداکارہ حمیرا اصغر کیس: بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات سامنے، موبائل اور زیور غائب
اسحاق ڈار کی افغان قیادت سے اہم ملاقاتیں، سیکیورٹی و بارڈر مینجمنٹ پر زور
سانحہ سوات: سیالکوٹ کے لاپتہ بچے عبداللّٰہ کی لاش برآمد