آج 20 رمضان المبارک ہے.آج کا دن تاریخ میں روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے. آج کے دن کو تاریخی اعتبار سے فتح مکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. وہ دن جس دن حق آگیا اور باطل مٹ گیا. نجانے کیوں مجھے اس دن سے بہت الفت ہے. فتح مکہ کے واقعات سے مجھے بہت لگاؤ ہے. کیوں نا ہو یہ ایک ایسا بے مثال دن تھا جس دن عدل و مساوات کی عظیم مثال قائم کی گئی.
یہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ ہیں جو اس وقت اسلام نہیں لائے تھے. سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتے ہیں. مکہ سے باہر روشنیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں. سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ میرے بھتیجے کا لشکر ہے. ابو سفیان رضی اللہ ورطہ حیرت میں پڑ جاتے ہیں وہی جو کل 313 تھے آج ہزاروں کی تعداد میں نظر آرہے تھے. اپنی کوئی تیاری بھی نا تھے نا آگے کا راستہ تھا نا پیچھے کا. سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے جان کی امان طلب کرنے لگے. سیدنا عباس نے بھی حامی بھر لی. چچا تھے نا جانتے تھے میرے بھتیجا بہت نرم دل ہے معاف کرنے پر آئے تو دشمن کتنا ہی طاقتور اور ظالم نا ہو معاف کردے گا. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور حضرت عباس نے کہا ابو سفیان آج معافی مانگنے آیا ہے. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کردیا اور ساتھ یہ اعلان بھی فرمادیا جو ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اس سے عام معافی کا اعلان ہے. اتنا بڑا پیکج… حضور جانتے تھے یہ وہی ابو سفیان ہے جس نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے احد میں پڑاؤ ڈالا تھا. وہ جانتے تھے یہ وہی ابو سفیان ہے جس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی .ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو معاف کردیا اس معافی کا بہت اثر ہوا اللہ نے ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے بڑے بڑے کام لئے… ہاں ایک اور فتح مکہ سے جڑے واقعے سے مجھے بہت لگاؤ ہے….نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ کر جارہے ہیں سوچا جاتے ہوئے دو رکعت کعبۃ اللہ میں پڑھ جاؤں .کعبہ میں پہنچے اور عثمان بن ابی طلحہ جو کعبہ کے متولی تھے انہوں نے نماز پڑھنے سے روک دیا. حضور نے عثمان بن ابو طلحہ سے کہا یاد رکھنا ایک وقت آئے گا یہ کعبہ کی چابیاں میرے ہاتھ میں ہونگی. عثمان بن ابی طلحہ مسکرادیے اور کہنے لگے ہاں ہاں تب تک قریش مر چکے ہونگے. حضور نے کہا نہیں نہیں قریش تب زندہ ہونگے اور تم بھی زندہ ہوگے. آج وہ وقت آچکا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہورہے تھے. عثمان بن ابی طلحہ بھی زندہ تھے .کعبہ کی چابیاں حضور کے ہاتھ میں تھیں. آپ نے چابیاں پھر عثمان بن ابی طلحہ کے حوالے کردیں. کہا جاتا ہے کہ آج بھی جا کعبہ کا متولی ہے وہ عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہے.
یہی نہیں اور بھی بہت سی مثالیں عدل و مساوات کی قائم ہوئیں. مسلمانوں کو گہرے دکھ پہنچانے والے سب سامنے کھڑے تھے اعلان ہوتا ہے کہ : اے قریش کے لوگو!تم سوچ رہے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘
تمام لوگوں نے کہا : اے محمد()!تم سے ہم کو خیر اور بھلائی کی امید ہے اس لئے کہ تم ہمارے بہترین بھائی ہو اور ہمارے شریف بھائی کے فرزند ارجمندہو!۔
اس کے بعدنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’آج تم لوگوں پر کوئی لعنت و ملامت نہیں، تم لوگ آزاد ہو۔ ‘‘ فتح مکہ کا یہ یادگار دن جب آتا ہے یعنی 20 رمضان کا دن مجھ سمیت سب بڑی بڑی پوسٹس لگاتے ہیں,تحاریر لکھتے ہیں لیکن یہ دن ہمیں درس دیتا ہے کہ ہم اس دن سے کچھ سیکھیں. اپنی انا کی قربانی دیں, اپنے دلوں کو صاف کریں, ہمیں کسی کتنے بڑے دکھ بھی کیوں نا پہنچائیں ہوں ہم معاف کرکے سنت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کریں. آئیے رمضان بھی دن بھی برکتوں اور سعادتوں والے عہد کریں ہم کہ خود کو سنواریں.

Shares: