میری پہچان تم سے ہے ۔۔۔ محمد نعیم شہزاد

(سال کے مختلف ایام کو مختلف ناموں سے موسوم کر دیا گیا ہے جیسے آج کا دن "فادرز ڈے” کے نام سے معروف ہے۔ اس حوالے سے انتہائی اہم بات کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سال میں صرف ایک دن ہی باپ کے نام نہیں بلکہ ہر دن باپ کا احترام ہونا چاہیے تو اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ میری دانست میں اس دن کو منانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں جو بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ یہ تو محض یاد دہانی کے لیے ہے کہ اس دن غور و فکر کریں اور کچھ خاص کریں۔)
(نوٹ: یہ ذاتی رائے کا اظہار ہے اس سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے۔)
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
ابو البشر سے ہی ہوتا ہے یہ جہاں پیدا
اس کائنات کا نظام امداد باہمی کے اصول پر چل رہا ہے۔ ہر اک شے کسی دوسری چیز پر منحصر ہے اور کسی کو بھی افتراقِ انحصار حاصل نہیں ہے۔ مرد و زن نسلِ انسانی کے ارتقاء کے لیے بنیاد ہیں تو آدم ہی بنی آدم کی ابتدا۔ الغرض انسان کے لیے پدر و مادر دونوں اہم اور ضروری ہیں مگر آج کے دن کی مطابقت سے ہم باپ کے حوالے سے بات کریں گے ۔
بنی نوع انسان کا آغاز وجود آدم سے ہی ہوا جو باپ کی مرکزی حیثیت اور اس کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے کافی ہے۔ باپ اس دنیا میں وہ واحد ہستی ہے جو انسان کی پیدائش سے پہلے بچے کے اس جہان میں آنے کا انتظام و انصرام کرتی ہے اور اسے یہ بھی فکر لاحق ہوتی ہے کہ میرے بعد میرے بچوں کی گزران کس طرح ہو گی۔ اپنا شباب، اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں اپنے اہل خانہ کے لیے صرف کر دینا ایک مرد کا شیوہ ہے۔ زمانے کے کٹھن حالات کا سامنا کرنا اور اہل خانہ کو راحت پہنچانا اس کا طرہ امتیاز ہے۔ باپ کی شفقت اور پیار مثالی ہے۔ یہ باپ ہی تو ہے جس کی تھپکی ایک بچے میں خود اعتمادی پیدا کر دیتی ہے اور زندگی میں آنے والے مشکل مراحل کا سامنا کرنے کی ہمت دیتی ہے۔
باپ کی ان قربانیوں اور اس کردار کے پیش نظر ہی خالق کائنات نے باپ کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا ہے کہ باپ کی رضامندی میں اپنی رضا اور باپ کی ناراضگی میں اپنی ناراضگی رکھ دی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا۔
ہمارے معاشرے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک کسان گرمی کے موسم میں کھیت میں کام کر رہا تھا۔ جب اس کے باپ نے اپنے بیٹے کو پسینے میں شرابور دیکھا تو کہا بیٹا کچھ آرام کر لو۔ تھوڑی دیر میں سایہ ہوتا ہے تو کام پورا کر لینا۔ بیٹے نے باپ کو تسلی دی کہ مجھے گرمی نہیں لگ رہی اور بدستور کام میں جتا رہا۔ باپ کی روح کو سکون نہ ملا تو اس کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے اپنے پوتے کے ساتھ دھوپ میں کھیلنا شروع کر دیا۔ اب بیٹے کو فوراً اپنے بیٹے کی فکر ہوئی اور کہنے لگا ابا جان اس چھوٹے کو سائے میں لے جائیں، دھوپ تیز ہے۔ تب بوڑھے باپ نے کہا واہ اپنے بیٹے کے لیے دھوپ تیز ہے اور میرے بیٹے لے لیے گرمی کی پرواہ ہی نہیں۔
ایک باپ ہی کل کے معمار تعمیر کرتا ہے اور ایسے باغ کی آبیاری کرتا ہے جس کا پھل شاید اسے خود کو میسر نہ آئے مگر وہ پوری تندہی سے اپنے کنبے کی پرورش کرتا ہے اور بغیر کسی صلہ کی خواہش کے اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔
آئیے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ بچے اپنے والد کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو والدین کا احترام اور ان کی فرمانبرداری نہایت ضروری ہے۔ جان لیں کہ والدین آپ کے خیرخواہ ہیں وہ ہمیشہ آپ کا بھلا ہی چاہیں گے۔ ان کے خواب آپ سے وابستہ ہیں اور وہ آپ کے روشن مستقبل کے لیے آپ سے زیادہ فکر مند ہیں ۔ انھوں نے اس وقت آپ کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کا آغاز کیا جب آپ طفلِ ناداں اور نا سمجھ تھے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور ان کی خواہشات کا احترام کریں۔ والدین سے مل کر خوشی کا اظہار کریں اور مسکرا کر ملیں۔ ان سے اپنے مسائل شئیر کریں، مشکلات میں ان سے رہنمائی لیں اور ان کو اپنا بہترین دوست سمجھیں۔
والدین آپ سے اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے وہ آپ سے جو بھی مطالبہ کرتے ہیں وہ آپ ہی کی ذات کے لیے ہوتا ہے۔ آپ اپنے عمل سے صرف ان کا نام بنا سکتے ہیں اور برا بھی کر سکتے ہیں ۔ آپ کی اچھائی والدین کی نیک نامی اور آپ کی برائی والدین کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ مگر پھر بھی بہت سے نوجوان اپنے عمل کو اپنی ذاتی زندگی سے تعبیر کرتے ہیں جو انتہائی تکلیف دہ بات ہے ۔
آج کے دن بالخصوص اور پورا سال بھی ایسے افراد جن کے والدین اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں سوچتے ہیں کہ ان کو والدین سے حسن سلوک کا موقع میسر نہیں آیا اور وہ والدین کی کماحقہ خدمت نہیں کر سکے تو ان کو چاہیے کہ اپنے والد اور والدہ کے قریبی رشتہ داروں، ان کے دوستوں اور ان کے قریب العمر افراد سے حسن سلوک کریں ایسا کرنے پر ان کو والدین سے حسن سلوک جیسا ہی اجر عطا ہو گا اور دل کو راحت بھی ملے گی۔
آج کے دن کا یہی پیغام ہے کہ والدین کی قدر کریں اور ان کا خیال رکھیں اور اگر وہ دنیا میں نہیں رہے تو ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں اور ان کے قریبی افراد سے ان جیسا ہی حسن سلوک کریں۔