اسلام آباد: سابق نگران وفاقی وزیر اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے قریبی ساتھی فواد حسن فواد نے حکومت کی جانب سے چینی کی درآمد کے حالیہ فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے نہ صرف غیر موثر بلکہ ملکی مفاد کے خلاف قرار دے دیا ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کئی شہروں میں چینی کی فی کلو قیمت 200 روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو گئی ہے، جس کے باعث عام صارفین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت نے چینی کے بحران سے نمٹنے کے لیے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے پہلا باضابطہ ٹینڈر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس درآمد کے لیے تقریباً 30 کروڑ ڈالر کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
فواد حسن فواد نے حکومت کے اس اقدام پر سخت تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ چینی کی درآمد کے فیصلے پر فوری طور پر نظرثانی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی کا سب سے بڑا صارف عام آدمی نہیں بلکہ فوڈ اور بیوریجز انڈسٹری ہے، جو ملک میں چینی کی ایکسپورٹ اور درآمد دونوں کی ذمہ دار ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جس نے پہلے چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت لے کر مارکیٹ میں کمی پیدا کی اور پھر مہنگی قیمتوں پر چینی بیچ کر بھاری منافع حاصل کیا۔ اس طرح کے حالات میں حکومت کی جانب سے چینی درآمد کرنا مسئلہ حل کرنے کی بجائے اسے مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
فواد حسن فواد نے حکومت سے سوال کیا کہ جن لوگوں کو چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی، ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟ اور اس پورے معاملے میں ایف بی آر کہاں ہے؟ انہوں نے حکومتی ناکامی کو چینی درآمد کرنے کی بنیاد نہیں قرار دیا اور کہا کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، جس میں اب تک ناکامی کا سامنا ہے۔