فیس بُک کمائی کیلئے پرتشدد اور نفرت انگیز مواد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے سابق مینجر کے تہلکہ خیز انکشاف

0
40

فیس بک کی ایک سابقہ ملازمہ نے انکشاف کیا ہے کہ ہمیشہ عوامی بھلائی کے بجائے کمپنی کے مفادات کو اہمیت و اولیت دیتا ہے اور کمائی کی خاطر سوشل ویب سائٹ کا الگورتھم ہی اس انداز کا بنایا گیا ہے کہ وہ پرتشدد اور نفرت انگیز مواد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

باغی ٹی وی : خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق فیس بک کی سابق ملازمہ فرانسس ہافن نے امریکی ٹی وی چینل ’سی بی ایس‘ کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیس بک کو صارفین کی ذہنی صحت یا فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنی کمائی کو اہمیت دیتا ہے۔

سوشل میڈیا کا غیرضروری استعمال اور نقصانات:تحریر: عمران افضل راجہ

فرانسس ہافن کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فیس بک، تشدد اور نفرت انگیز مواد سمیت غلط معلومات پر مبنی پوسٹس کو ہذف کرتا ہے یا انہیں ہٹا دیتا ہے، تاہم ایسا نہیں ہے فیس بک صرف 5 فیصد تک نفرت انگیز جب کہ ایک فیصد سے بھی کم پرتشدد مواد کو ہٹاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ رواں سال کے آغاز تک فیس بک کی ٹیم کا حصہ تھیں، بعد ازاں وہ ان سے الگ ہوگئیں اور ماضی میں وہ گوگل اور پنٹریسٹ جیسی ویب سائٹس کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔

انہوں نے گوگل اور پنٹریسٹ سے فیس بک کا موازنہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیس بک ان سے زیادہ خطرناک اور پرتشدد مواد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ فیس بک کا الگورتھم اس طرح کا بنایا گیا ہے کہ وہ مبہم اور غلط معلومات کو فروغ دیتا ہے، تاکہ لوگ کافی دیر تک ویب سائٹ پر چیزوں کو سرچ کرکے حقائق جاننے کی کوشش کریں، کیوں کہ ایسے عمل سے اس کی کمائی بڑھتی ہے۔

‏سوشل میڈیا: یہ ادھوری اور مصنوعی دنیا تحریر جواد خان یوسفزئی

خبر رساں ادارے "سی این این” کے مطابق 37 سالہ پروڈکٹ منیجر فرانسس ہافن نے اس سے قبل اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے ادارے کے خلاف امریکہ کے متعلقہ اداروں کے پاس شکایات رجسٹرڈ کرائی تھیں۔

فرانسس ہافن نے درج کرائی جانے والی شکایات میں دعویٰ کیا تھا کہ فیس بک کی اپنی تحقیقات بتاتی ہیں کہ وہ نفرت انگیز اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتاہے فرانسس رواں ہفتے امریکی کانگریس میں بھی گواہی دیں گی ان کو امید ہے کہ آگے آنے کی وجہ سے حکومت فیس بک کی سرگرمیوں کے لیے لازمی قواعد و ضوابط وضع کرے گی۔

فیس بک فائلز لیک کرنے والی سابق مینجر فرانسس ہافن نے دوران انٹرویو کہا کہ فیس بک کی جانب سے متعدد مرتبہ کہا گیا کہ وہ منافع کا انتخاب کرتی ہے فیس بک نے قبل از وقت غلط معلومات اور ہنگامہ آرائی کو روکنے کے لیے بنائے گئے حفاظتی انتظامات کو بند کر دیا تھا جس کے بعد جو بائیڈن نے گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے دی تھی۔

فیس بک کی سابقہ پروڈکٹ منیجر کا کہنا تھا کہ 6 جنوری کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے کو معاونت ملی تھی۔

امریکی انتخابات کے بعد ان کی سابقہ کمپنی نے شہری سالمیت پر بنایا گیا یونٹ تحلیل کر دیا تھا۔ وہ اسی یونٹ میں کام کرتی تھیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسی وقت انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ فیس بک اس مقصد کے لیے درکار سرمایہ فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق فرانسس ہیگن کا انٹرویو نشر ہونے کے بعد فیس بک کے ملازم نے تمام ترالزامات کو گمراہ کن اور بے بنیاد بھی قرار دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فیس بک کی اندرونی تحقیقات کے ہزاروں صفحات کو کاپی کرنے کے بعد فرانسس نے انہیں وال اسٹریٹ جرنل میں لیک کیا جنہیں فیس بک فائلز کا نام دیا گیا ہے۔

آج کے نوجوانوں کا سوشل میڈیا کا استعمال تحریر: تیمور خان 

فرانسس کے حوالے سے ٹیکنالوجی ویب سائٹ ’دی ورج‘ نے بتایا کہ وہ ماضی میں فیس بک کی پروڈکٹ منیجر رہی ہیں۔

انہوں نے مذکورہ انکشافات حال ہی میں فیس بک کی جانب سے اندرونی طور پر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کے پس منظر میں کیے۔

فیس بک کی اندرونی طور پر کی جانے والی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ انسٹاگرام نوجوانوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

مذکورہ تحقیق فیس بک کے زیر انتظام اندرونی طور پر 3 سال تک جاری رہی تھی جس میں دریافت کیا گیا تھا کہ انسٹاگرام نوجوان صارفین بالخصوص لڑکیوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

فیس بک کی تحقیق، انسٹاگرام نوجوان لڑکیوں کے لئے نقصان دہ ثابت

اس تحقیق کے نتائج 2019 میں کمپنی کو پیش کیے گئے تھے جن میں دریافت کیا گیا کہ انسٹاگرام استعمال کرنے والی ہر 3 میں سے ایک نوجوان لڑکی کو باڈی امیج ایشو کا سامنا ہوتا ہے۔

مذکورہ تحقیق کے مطابق نوجوانوں نے یہ بھی بتایا کہ انسٹاگرام کے استعمال سے ان میں ذہنی بے چینی اور ڈپریشن بھی بڑھ جاتا ہے۔

اسی حوالے سے ہی کی گئی ایک اور تحقیق کے مطابق انسٹاگرام پر معروف شوبز شخصیات جیسا کہ کم کارڈیشین، بلی آئلش، کنڈیل جینر، جسٹن بیبر، ڈانسر چارلی ڈی امیلیو، آریانا گرانڈے اور کاڈیشین خاندان کے دیگر ارکان کو فالو کرنے والے افراد منفی رجحانات کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ خود سے متعلق بھی غلط سوچنے لگتے ہیں۔

نتائج میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ معروف شخصیات کو فالو کرنے یا ان کا مواد دیکھنے والے صارفین میں کس طرح کے منفی رجحانات پیدا ہوتے ہیں یا وہ خود کو کس اور کیوں دوسروں کے مقابلہ برا محسوس کرتے ہیں؟-

تاہم نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباًس تمام معروف شوبز و ٹی وی شخصیات کو فالو کرنے والے صارفین کی سوچ منفی ہوجاتی یا ان کے دماغ میں برے خیالات آنے لگتے ہیں۔

دنیا بھر میں فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی سروسز متاثر،صارفین کو مشکلات کا سامنا

Leave a reply