وفاقی محتسب، واپڈا گردی کے سامنے امید کی آخری کرن
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
یہ کالم سنی سنائی باتوں پر مبنی نہیں بلکہ میری ذاتی آپ بیتی ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا ہے نہ وہ افسانہ ہے، نہ مبالغہ آرائی اور نہ ہی الفاظ کا کوئی جادو۔ میں ایک ایماندار میپکو صارف ہوں، برسوں سے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بجلی کے بل ادا کر رہا ہوں۔ نہ کبھی میٹر سے چھیڑ چھاڑ کی، نہ بجلی چوری کا گناہ کیا۔ لیکن جب میں نے اپنے علاقے میں کھلم کھلا بجلی چوری دیکھی، ٹرانسفارمرز سے لٹکتے کنڈے اور منظم انداز میں لائنوں پر چوری دیکھی تو میرا ضمیر جاگ اٹھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔ مگر افسوس! میری ایمانداری ہی میرے لیے جرم بن گئی۔ میں نے ایکسئین، ایس ڈی او اور لائن سپرنٹنڈنٹ کو تحریری شکایات دیں، ثبوت دیے اور اپیل کی کہ چوروں کو پکڑیں، ایماندار صارفین کو ناجائز ڈیٹیکشن بل بھیج کر سزا نہ دیں۔ لیکن ہوا یہ کہ مجھے ہی سزا دے دی گئی، میپکو کے ناخداؤں نے میرے نام 14 ہزار روپے سے زائد کا ناجائز ڈیٹیکشن بل جاری کر دیا۔ مجھے یہ سزا میری ایمانداری کی پاداش میں دی گئی۔
جب میں اس بل کے خلاف اپنی سب ڈویژن کے ایس ڈی او کے پاس گیا تو بجائے جواب کے مجھے ہٹ دھرمی سے حکم دیا گیا کہ بل ہر صورت ادا کرنا ہوگا۔ میں نے دلیل دی کہ اگر کوئی چوری کی ہوتی تو اس کا کوئی ثبوت ہوتا، میرا میٹر، میرا لوڈ، سب کچھ تمہارے سسٹم میں موجود ہے۔ تم نے چوروں کی بستی کے ٹرانسفارمر سے کنکشن لینا میرا جرم بنا دیا اور مجھے ہی چور ٹھہرا دیا۔ میرے پوچھنے پر کہ کیا ثبوت ہے تمہارے پاس یہ ناجائز بل بھیجنے کا، ایس ڈی او موصوف نے کہاکہ”سب کوبھیجا ہے اور تمہیں بھی یہ بھرنا پڑے گا!” جس پر میں نے جواب دیا کہ میں عدالت میں انصاف کے لیے جاؤں گا، چاہے مجھے سپریم کورٹ تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے جہاں تک ممکن ہوگا کوشش کروں گا۔ اس کے بعد میں ایک سینئر وکیل دوست کے پاس گیا اور انہیں اپنا دُکھڑا سنایا کہ میرے ساتھ میپکو نے یہ ظلم کیا ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میرا کیس کورٹ میں فائل کریں اور مجھے اس ظلم سے نجات دلائیں۔ اس وکیل دوست نے جو مجھے جواب دیا، وہ انتہائی مایوس کن تھا،انہوں نے کہا "میرے بھائی! آپ کا بل صرف 14,000 روپے ہی تو ہے، جمع کرائیں اور اپنی جان چھڑائیں۔ عدالتوں کے چکر میں آپ کو یہ بل معلوم نہیں کتنا مہنگا پڑے گا کیونکہ آپ کو ہمارے اس عدالتی نظام سے انصاف نہیں ملے گا۔ پوری کچہری چوری کی بجلی پر چل رہی ہے، جہاں سبھی اس چوری میں ملوث ہوں، آپ کے حق میں کیسے فیصلہ آ سکتا ہے؟ میں آپ کا کیس عدالت میں فائل نہیں کر سکتا، بس آپ جائیں بل جمع کرائیں۔”
اس جواب نے مجھے انتہائی مایوس کیا اور یہ بات واضح ہو گئی کہ کرپشن کس قدر ہمارے اداروں میں جڑیں پکڑ چکی ہے۔ کچہری سے نکل ہی رہا تھا کہ ایک دوست عابد خان لشاری سے ملاقات ہو گئی۔ انہیں تمام ماجرا سنایا تو انہوں نے ایک آدمی کو فون کیا اور کہا کہ "یہ ہمارے سینئر صحافی دوست ہیں، یہ آپ کے پاس آ رہے ہیں، ان کی رہنمائی کریں، انہیں کیا کرنا چاہیے؟” میں عابد خان لشاری کے بتائے ہوئے آدمی کے پاس پہنچا تو اس بندے نے مجھے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان خیابانِ سرور میں وفاقی محتسب کا دفتر کھل رہا ہے، وہاں جائیں، درخواست دیں۔ ادھر سے آپ کو مکمل انصاف ملے گا۔ اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آپ آن لائن وفاقی محتسب کو بھی درخواست بھیج سکتے ہیں اور ساتھ میں میپکو ہیڈکوارٹر کو بھی درخواست رجسٹری کرا کر بھیج دیں۔ اس بھلے بندے کے کہنے پر میں نے درخواستیں لکھیں، آن لائن وفاقی محتسب کو درخواست بھیجی، ساتھ میں میپکو ہیڈکوارٹر ملتان بھی درخواست بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی۔ جس کا آج تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ درخواست پاکستان پوسٹ والوں نے دریائے چناب میں بہا دی یا میپکو ہیڈکوارٹر کی ردی میں گم ہو گئی۔
تو خیر کچھ دنوں بعد ایک سرکاری نمبر سے کال آئی جس میں مجھے بتایا گیا کہ وہ وفاقی محتسب کے ریجنل آفس سے بات کر رہے ہیں اور مجھ سے چند ضروری سوالات پوچھے گئے اور پھر بتایا کہ کل آپ کی تاریخ ہے، آپ ہمارے آفس اپنے کیس کی سماعت کے لیے تشریف لائیے گا۔ سب سے پہلے جب میں وفاقی محتسب کے ریجنل آفس ڈیرہ غازی خان پہنچا تو وہاں موجود سٹاف نے میرے ساتھ ایسا خوبصورت برتاؤ کیا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کوئی ان کا وی آئی پی مہمان ہوں۔ کرسی پر بٹھایا گیا، فوری طور پر ایک ملازم نے پانی پیش کیا۔ اس کے بعد میرے آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے بتایا کہ کل فون کال آئی تھی، آج مجھے کیس کی سماعت کے لیے بلایا گیا ہے۔ پھر مجھے ایک نوجوان اپنے لیگل آفس میں لے گیا جہاں ایک خوبصورت نوجوان لیگل ایڈوائزر موجود تھا، جس نے اپنے تعارف میں بتایا کہ اس کا نام ملک ارباب رحیم ہے۔ میرے کاغذات کی جانچ کے بعد بتایا کہ آپ کا کیس سیکنڈ فلور پر ریجنل انچارج ڈاکٹر محمد زاہد صاحب سماعت کریں گے۔ ایک ملازم میرے ساتھ بھیجا جو مجھے کمرہ سماعت میں لے گیا۔ جب میں نے آفس کے اندر جانے کی اجازت طلب کی تو مجھے فوری اور باعزت طریقے سے کہا گیا کہ تشریف لائیے!
جب میں ڈاکٹر محمد زاہد صاحب کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور مسئلہ پوچھا۔ میرے بتانے پر انہوں نے میری درخواست والی فائل منگوائی اور تفصیل سے اسے پڑھا اور مجھ سے انتہائی شفقت بھرے انداز میں سوالات پوچھے جن کے میں نے جوابات دیے۔ پھر ڈاکٹر زاہد صاحب نے واپڈا والوں کو بلایا اور ان سے میرے بل سے متعلق تمام ریکارڈ فوری طور پر طلب کیا۔ واپڈا یا میپکو کے ذمہ داران میرے خلاف کسی بھی قسم کی بے ضابطگی ثابت نہ کر سکے، جس پر وفاقی محتسب نے میرے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔ یہ فیصلہ میرے لیے واپڈا کے ظلم، دھونس اور دھاندلی کے بعد ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ یہ محسوس ہوا کہ اگر تمام ادارے اپنے اندر خود احتسابی کا مؤثر نظام قائم کرتے تو عوام کو کبھی اس طرح کی اذیت سے نہ گزرنا پڑتا۔ یہ کرپشن ہی ہے جس نے کسی بھی محکمے میں خود احتسابی کو اپنے ہاں قدم ہی نہ رکھنے دئے۔
ایک ماہ بعد وفاقی محتسب اسلام آباد سے توثیق شدہ فیصلہ موصول ہوا۔ جب میں اس فیصلہ کی کاپی لے کر واپڈا کے آر او آفس گیا تو وہاں نئے فسانے میرے منتظر تھے۔ آر او نے اس فیصلے پر نوٹ جاری کرکے مجھے متعلقہ کلرک راشد کے پاس بھیجا۔ جب اس کلرک بادشاہ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ آپ ایکسئین آفس میں ذاکر صاحب کے پاس جائیں۔ جب وہاں پہنچا تو آفس کھلا تھا لیکن سیٹ پر کوئی موجود نہیں تھا۔ باہر موجود ایک بندے سے پوچھا کہ ذاکر صاحب کون ہیں اور کہاں ملیں گے تو اس بندے نے جواب دیاکہ "تیسرا دن ہے میں مسلسل انتظار کر رہا ہوں، مجھے ابھی تک نہیں ملا۔” چوتھے دن خوش قسمتی سے میری ذاکر صاحب سے ملاقات ہو گئی، کہنے لگے کہ آج میرے پاس ٹائم نہیں ہے، میں وفاقی محتسب جا رہا ہوں، آپ کل تشریف لائیے گا۔ جب میں اگلے دن ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا اس فیصلہ کی کاپی آپ مجھے دے کر جائیں، دو تین دن بعد آنا۔ اسے کاپی کرا دی۔ اور تیسرے دن ذاکر صاحب کی دی گئی پیشی پر پہنچا تو مجھے ان کی طرف سے بھاشن دیا گیا کہ آپ اشفاق صاحب کے پاس جائیں۔ اس دن مجھے ڈھونڈنے سے بھی کہیں پر اشفاق صاحب نہ ملے۔ پھر اگلے دن اشفاق سے ملاقات ہو گئی تو جناب نے حکم جاری کیا کہ آپ کا فیصلہ ابھی تک ہمارے ہاں نہیں پہنچا! میں نے کہاکہ "جناب اسلام آباد سے فیصلہ جاری ہوئے 43 دن ہو چکے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہمیں آپ کا فیصلہ نہیں ملا؟” جس پرجواب دیا گیا کہ آپ کا فیصلہ میپکو ہیڈ کوارٹر میں پڑا ہوگا، وہ بھیجیں گے تو ہمارے پاس آئے گا۔
تھک ہار کردوبارہ وفاقی محتسب کے ریجنل آفس پہنچا، ڈاکٹر زاہد سے ملاقات کی اور انہیں تمام حالات سے آگاہ کیا۔ جس پر انہوں نے دوبارہ نوٹس لیا، ایمپلیمنٹیشن لیٹر سمیت واپڈا/میپکو کے ذمہ داران کو طلب کیا۔ جنہوں نے پھر اگلے ہفتے عمل درآمد کی رپورٹ جمع کرائی اور مجھے بھی وفاقی محتسب سے عمل درآمد کے لیٹر کی کاپی جاری ہوئی۔ جب اگلے روز میں اپنے نئے بل اور عمل درآمد کی کاپی لے کر آر او آفس گیا تو انہوں نے اس لیٹر دیکھنے کے بعد اپنے ریمارکس لکھے اور مجھے کہا کہ آج راشد چھٹی پر ہے، حسنین بیٹھا ہے، اس کے پاس جائیں، وہ آپ کو بل بنا کر دے گا۔ جب حسنین کے پاس گیا تو وہاں ایک اورحکم میرا منتظر تھا کہ آپ یہ تمام کاغذات لے کر اشفاق کے پاس جائیں، وہی اس پر عمل درآمد کرائے گا۔ جب اشفاق کے پاس پہنچا انہوں نے پھر حکم دیا کہ آپ سوموار یعنی پانچ روز بعد آنا۔ میں نے کہا: "ایسا کیا مسئلہ ہے؟ جب آپ لوگوں نے رپورٹ وفاقی محتسب میں جمع کرا دی ہے تو میرا بل ٹھیک کیوں نہیں ہو سکتا؟” جس پر اشفاق نے جواب دیا کہ ادھر رپورٹ تو ہم نے جمع کرا دی تھی لیکن ابھی تک ایکسئین کے سائن ہونا باقی ہیں۔ میں نے جب پوچھا کہ جب ایکسئین کے سائن نہیں ہوئے تو پھر ایمپلیمنٹیشن لیٹر وفاقی محتسب کو کیسے جمع کرا دیا ہے؟ یہ جو کاپی ہے اس پر کس کے سائن ہیں، دوسری کون سی اتھارٹی ہے جو انہیں بائی پاس کر رہی ہے؟ میں نے کہاکہ "مہربانی کریں، حسنین کو بتائیں اور میرا نیا بل جاری کروائیں۔” جس پر اشفاق نے کہا کہ آپ دوبارہ حسنین کے پاس جائیں اور میری یہ نشانی دیں کہ میں نے ابھی ان سے فون پر بات کی ہے تو وہ تمہیں نیا بل جاری کر دے گا۔
کئی بار سیڑھیاں اوپر چڑھتے اور اترتے ٹانگیں درد کرنے لگیں اور شدید گرمی میں سانس بھی پھولنے لگا۔ اس دوران میں دوبارہ حسنین کے پاس پہنچا اور اسے نشانی بتائی تو اس نے کہاکہ ٹھہرو ،میں بل بنا دیتا ہوں۔” میں نے اسے کہا کہ ڈیٹیکشن بل جمع نہ کرانے کے باعث اس بل میں جرمانے لگے ہوئے ہیں، جب اصل رقم ہی ختم ہو گئی ہے تو جرمانہ کس چیز کا، وہ بھی ختم کرکے بل بنائیں۔ اس نے مجھے بل اور دوسرے کاغذات واپس کرتے ہوئے کہاکہ "آپ کا بل نہیں بنتا، جائیں آپ جہاں سے بنوا سکتے ہیں بنوا لیں۔ ہمیں جو عدالت کا حکم ہے ہم اسی پر عمل درآمد کریں گے۔” اس کے بعد دوبارہ آر او کے پاس گیا، اسے اپنا مسئلہ بتایا اور کہا کہ جب اصل رقم ہی ختم ہو گئی ہے تو اس رقم کا جرمانہ کیسا؟ جس پر انہوں نے میرے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک درخواست لکھیں، میں جرمانے ختم کر دیتا ہوں۔ درخواست پر جرمانے ختم کرانے کا آرڈر لے کر دوبارہ حسنین کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا، سوموار کو راشد آئے گا تو آپ کا بل وہی درست کرے گا۔ پھر تین دن گزرنے کے بعد سوموار کو میپکو کمپلیکس پہنچا، سب سے پہلے حسنین سے ہی ملاقات ہوئی، جس نے کہا کہ آپ راشد کے پاس جائیں۔ جب راشد کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ آپ حسنین کے پاس جائیں۔ مجھ سمیت بیشتر سائلین شٹل کاک بن گئے! پھر تھک کر میں دوبارہ آر او کے پاس گیا تو آر او نے راشد کو ڈائریکٹ کہا کہ آپ ان کا بل بنا دیں۔ اس حکم کے بعد بھی مجھے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رکھنے بعد بل بنایا گیا، جس پر میں نے آر او کا شکریہ ادا کیا اور پنجاب بینک جا کر بل ادا کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس طرح وفاقی محتسب بے مثال کام کر رہا ہے، باقی محکمے کیوں نہیں کرتے؟ اور وفاقی محتسب کے دیے گئے ریلیف پر واپڈا/میپکو کے اہلکار فرعون کیوں بن جاتے ہیں؟ کیوں عوام کو اپنے جائز حقوق کے لیے اس قدر دھکے کھانے پڑتے ہیں؟ یہ تمام واقعات ہمارے نظام میں موجود سرخ فیتہ شاہی اور کرپشن کی واضح مثال ہیں۔ کاش پاکستان میں ایسا کوئی انقلاب آئے جہاں تمام ادارے اپنے اندر خود احتسابی کا مربوط نظام قائم کر سکیں اور وفاقی محتسب کے دیے گئے فیصلوں کے خلاف روڑے نہ اٹکائیں۔ عوام کے لیے انصاف کو آسان اور فوری بنایا جائے تاکہ جس طرح مجھے وفاقی محتسب سے ریلیف ملاہے اسی طرح ہر مظلوم کے حصے میں بھی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آئے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔