ایف آئی اے اور یونان کشتی حادثہ، وزیراعظم کی برہمی ، انصاف کب ہوگا؟

ایف آئی اے اور یونان کشتی حادثہ، وزیراعظم کی برہمی ، انصاف کب ہوگا؟
تحریر: ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
یونان کشتی حادثے میں 40 سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت نے نہ صرف ہمارے عدالتی اور انتظامی نظام کی ناکامی کو بے نقاب کیا بلکہ اس نے ایک اور گہرا سوال بھی اٹھایا ہے: کیا ہم نے اپنے نظام انصاف میں اتنی خامیاں پال رکھی ہیں کہ اس قسم کے سانحات روز مرہ کا حصہ بن گئے ہیں؟ یہ واقعہ صرف ایک دردناک سانحہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی، سیاسی اور قانونی ڈھانچے میں موجود گہری خرابیوں کا عکس ہے۔ اس حادثے کی اصل حقیقت کا پتا لگانے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن اس دوران سامنے آنے والے انکشافات نے حکومت اور اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے والے ایف آئی اے کے 31 اہلکاروں نے ثابت کر دیا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اب خود جرم کی معاونت کرنے والے بن چکے ہیں۔ ان افسران کی ذمہ داری تھی کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کریں، لیکن وہ خود اسمگلرز کی مدد کر کے معصوم افراد کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتے رہے۔ فیصل آباد، سیالکوٹ، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ جیسے اہم ایئرپورٹس سے یہ مجرمانہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ جب قانون کے رکھوالے ہی اپنے فرض میں ناکام ہوں تو عوام کس سے انصاف کی امید رکھیں؟ ان افسران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ نہ صرف جائز ہے بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ حکومت اپنی انتظامی ناکامیوں کو سنجیدہ لے رہی ہے۔

ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے لیے وزیراعظم کی برہمی اور ایک ہفتے کی ڈیڈلائن قابل تعریف ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برہمی کے بعد کوئی ٹھوس اقدامات سامنے آئیں گے؟ کیا ان انسانیت کے دشمن اہلکاروں کو عبرتناک سزا دی جائے گی؟ یا یہ معاملہ بھی دیگر سانحات کی طرح فائلوں کی گرد میں دب جائے گا؟ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ رشوت، سیاسی سرپرستی اور عدالتی کمزوریوں کی وجہ سے مجرم نہ صرف آزاد ہو جاتے ہیں بلکہ وہ دوبارہ اپنے دھندے کو نیا روپ دے کر چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یونان کشتی حادثے کے ذمہ داروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لانا اور بے رحم انصاف ہماری عدلیہ اور انتظامیہ کی ساکھ کے لیے اہم ہے۔

اگر ہم نے یہ موقع ضائع کر دیا اورحادثہ کے شکارنوجوانوں کو انصاف نہ دلایا تو ہماری انصاف کی فراہمی کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوجائے گا، جسے ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔یہ مسئلہ صرف چند کرپٹ اہلکاروں تک محدود نہیں۔ یہ ایک منظم اور وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو یہ غیر قانونی دھندہ اپنے سیاسی سرپرستوں کے زیرسایہ انجام دیتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے اس دھندے میں ملوث افراد اپنے سیاسی اثرورسوخ کا فائدہ اٹھا کر مقدمات کو کمزورکراتے ہیں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ان افراد کے نیٹ ورک کی گرفتاری اور ان کی مالی تحقیقات کا عمل اس بات کا ثبوت ہو گا کہ حکومت اس مسئلے کو نہ صرف سنجیدہ لے رہی ہے بلکہ اس کا حقیقی حل بھی چاہتی ہے۔

اگرچہ وزیراعظم نے اس معاملے میں فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے اور برہمی کا جواظہار کیاہے، وقت کا تقاضا ہے کہ اس معاملے پر عملی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کسی بھی قسم کی بے حسی یا تاخیر عوام کا اعتماد مزید متزلزل کرے گی۔ اس سانحہ کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی نگرانی کے لیے آزاد کمیشن قائم کرنا اور سیاسی سرپرستی کو ختم کرنے کے لیے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔

یونان کشتی حادثہ ہمارے اداروں اور حکومتی عملداروں کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ نظام میں موجود گہری خامیوں کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ ان کی اصلاح کے لیے فوری اور مئوثرقدامات کریں۔ یہ سانحہ ایک تلخ حقیقت کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ اگر ہم نے اس گھناؤنے جرم کے خاتمے کے لیے اس وقت سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات نہ کیے تو مسائل نہ صرف جوں کے توں رہیں گے بلکہ وہ مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں، عوامی شعور بیدار کریں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نظام کو شفاف اور مئوثربنائیں تاکہ مستقبل میں نہ تو کوئی معصوم شہری اس کرپٹ نیٹ ورک کا شکار ہو اور نہ ہی ہمارے اداروں کی ناکامی کی وجہ سے مزید زندگیاں تباہ ہوں۔ یہ نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ اس سانحہ کے بعد انصاف کی آواز بلند کریں تاکہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔

Comments are closed.