اسلام آباد (رپورٹ شہزاد قریشی)عالم ارواح میں آئین نویس سیاستدانوں کی روحیں پارلیمنٹ ہائوس کا طواف کرتے ہوئے پشیمان ہوتی ہوں گی کہ ہماری سیاسی اولادیں ہمارے تخلیق کئے ہوئے آئین و قانون سے ہی ب رسراقتدار آکر آئین سے روگردانی اور انحراف کی کیونکر مرتکب ہورہی ہیں اور وہ وقت کب آئے گا جب آئین پاکستان پر حقیقی معنوں میں عمل ہوگا۔
آئین کے تحت حلف اٹھانے والے سیاستدان حکومتی عہدیداران‘ اقربا پروری‘ سفارشی کلچر سے توبہ کریں گے اس وقت ہر آئین پسند اور قانون پسند پاکستانی اپنے حقوق کے لئے ترس رہا ہے۔ آئین پاکستان کے خالق بھٹو شہید‘ مولانا مودودی‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ نواب زادہ نصر اﷲ اور دیگر عمائدین کی روحیں پارلیمنٹ ہائوس میں براجمان سیاستدانوں سے سوال کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ کیا ہمارے بنائے ہوئے آئین میں خامیاں تھیں یا آپ کی شخصیات اور کردار داغ دار ہیں؟
آج بھی اگر بابائے قوم قائد اعظم کی مجلس قانون ساز سے پہلے خطبے کو نہ صرف تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے اور سیاستدانوں کو حلف برداری تقریب پڑھ کر سنانے کا رواج ڈالا جائے تو آج بھی ہمارے سیاستدان ہر سیاسی محاذ اور حکومتی عہدے پر کامیاب ہوسکتے ہیں انہیں کوئی بھی اپنے اشاروں پر ناچنے پر مجبور نہیں خرسکتا۔ آئین کی کتاب میں سب درج ہے کوئی کس طرح وزیراعظم بنتا ہے الیکشن کیسے کرائے جائیں کوئی وزیراعظم کیسے گھر جاتا ہے۔
پوری وضاحت کے ساتھ سب کچھ درج ہے۔ آئینی سوال دو اور دو چار کی طرح ہے۔ مگر ہمارے سیاستدانوں سے پھر بھی یہ سوال حل نہیں ہورہا اس سلسلے میں ہمارے آج کے سیاستدانوں کی سلطانی ذرا مشکوک ہے بقول علامہ اقبال
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرے