ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

مسرور انور
6 جنوری یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی صف اول کے فلمی نغمہ نگار و شاعر مسرو انور 6 جنوری 1944 میں ہندوستان کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام انور علی تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور پاکستان ہجرت کر گئے۔ انہیں شاعری کا شوق بچپن سے تھا اور فلم و موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ اسی شوق اور دلچسپی کے سبب فلم ہدایت کار پرویز ملک اور فلمی موسیقار سہیل رعنا سے ان کی دوستی ہو گئی۔ اس دوستی اور میل جول کے باعث انہیں فلموں کے لیے گیت لکھنے کی پیش کش کی گئی جو کہ انہوں نے قبول کر لی اور 1962 میں انہوں نے فلم ” بنجارن” کے لیے گیت لکھ کر اپنے کیریئر کا شاندار آغاز کر دیا دوسری فلم ” ارمان” تھی تیسری فلم ” ہیرا اور پتھر” تھی اس فلم کے گیتوں نے بھی دھوم مچادی تھی۔ جس کے بعد ان کے مشہور اور سپر ہٹ گیتوں اور گانوں کی طویل فہرست ہے۔ انہوں نے نگار ایوارڈ سمیت کئی دیگر اہم اعزازات بھی حاصل کیے۔ مسرو انور نے فلمی نغمہ گاری کے علاوہ غزل اور ملی نغمے بھی لکھے۔ گلوکار غلام علی کی آواز میں ان کی گائی ہوئی غزل
ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

نے پاکستان اور ہندوستان میں مقبولیت اور پذیرائی کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔ ان کا ملی نغمہ

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے

نے بھی ملک بھر میں دھوم مچا دی ۔ وہ ایک بہترین شخصیت کے مالک تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور معصومیت مستقل طور پر قائم رہتی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے Baby Face کے خطاب سے نوازا گیا۔ یکم اپریل 1996 میں لاہور میں ان کی وفات ہوئی۔

منتخب کلام

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی

نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی

کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں
کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی

اپنی جاں نذر کروں ،اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد ِمجاہد تجھے کیا پیش کروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل میں پیدا کیا اک جذبۂ تازہ تُو نے
میرے گیتوں کو نیا حوصلہ بخشا تُو نے
کیوں نا تجھ کو انہی گیتوں کی نوا پیش کروں
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد ِمجاہد تجھے کیا پیش کروں

اکیلے نہ جانا ھمیں چھوڑ کر تم
تمھارے بنا ھم بھلا کیا جئیں گے

بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں
جس کو تم نہ سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں
تم نے مجھے بھلا دیا نظروں سے یوں گرا دیا
جیسے کبھی ملے نہ تھے ایک راہ پر چلے نہ تھے
تھم جاؤ میرے آنسوؤں ان سے نہ کچھ گلہ کرو
وہ حسن کی مثال ہیں میں عشق کا زوال ہوں
جس کو وہ نہ سمجھ سکے میں ایسا ایک سوال ہوں
کرنا ہی تھا اگر ستم دینا تھا عمر بھر کا غم
عہد وفا کیا تھا کیوں چاہت سے دل دیا تھا کیوں
تم نے نگاہ پھیر لی اب میں ہوں میری بےبسی
بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں
——
مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے
نہ جانے مجھے کیوں یقیں ہو چلا ہے
میرے پیار کو تم مٹا نہ سکو گے
مری یاد ہوگی جدھر جاؤ گے تم
کبھی نغمہ بن کے کبھی بن کے آنسو
تڑپتا مجھے ہر طرف پاؤ گے تم
شمع جو جلائی ہے میری وفا نے
بجھانا بھی چاہو بجھا نہ سکو گے
کبھی نام باتوں میں آیا جو میرا
تو بےچین ہو ہو کے دل تھام لو گے
نگاہوں میں چھائے گا غم کا اندھیرا
کسی نے جو پوچھا سبب آنسوؤں کا
بتانا بھی چاہو بتا نہ سکو گے

کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ھیں کتنے پیارے
چپ رہ کے بھی نظر میں ھیں پیار کے اشارے
یہ شان بے نیازی یہ بے رخی کا عالم
بے باک ھو گیا ھے ان کا مزاج بر ھم
اک پل میں نےھم نے دیکھے کیا کیا حسین نظارے
کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ھیں کتنے پیارے
فربان جائیں اے دل ھم ان کی اس ادا کے
خود بھی سلگ رھے میں ھم کو جلا جلا کے
ھیں کتنے خوبصورت اس آگ کے شرارے
کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ھیں کتنے پیارے

یوں اسنے پیار سے میری بانہوں کو چھو لیا
منزل نے جیسے شاخ کے راہوں کو چھو لیا
اک پل میں دل پہ کیسے قیامت گزر گئی
رگ رگ میں اسکے حسن کی خوشبو بکھر گئی
زلفوں کو میرے شانے پہ لہرا گیا کوئی
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب اس دل تباہ کی حالت نا پوچھیے
بے نام آرزو کی لذت نا پوچھیے
اک اجنبی تھا روح کا ارمان بن گیا
اک حادثہ تھا پیار کا عنوان بن گیا
منزل کا راسته مجھے دکھلا گیا کوئی
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی

اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے
وہ سامنے بیٹھے ہیں کافی یہ عنایت ہے

الہٰی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے
خوشی کے ساتھ غم بے کسی کسی کو نہ دے

خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرادو
کہتی ہیں یہ بہاریں ہنسنا ہمیں سیکھا دو

سُونی پڑی رہیں گی یہ پربتوں کی راہیں
یونہی کُھلی رہیں گی ان وادیوں کی بانہیں
جب تک جُھکی یہ نظریں ہنس کہ نہ تم اُٹھا دو
خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرادو

دل دھڑکے میں تم سے کیسے کہوں
کہتی ہے میری نظر شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی ڈھونڈ ہی رہی تھی تمہیں یہ نظر ہماری
کہ تم آ گئے اچانک بڑی عمر ہے تمہاری

ابھی کچھ ہی دیر پہلے بڑا زکر تھا تمہارا
کئی بار ڈھرکنوں نےتمہیں پیار سے پکارا

مٹا انتظار دل کا ہوئ ختم بےقراری
ہمیں پیار کی خوشی سے کیا آشنا تم ہی نے
تمہیں پیار ہم وہ دیں گے جو دیا نہ ہو کسی نے
کہ تمہاری زندگی ہے ہمیں جان سے بھی پیاری
وہ نظر کے سامنے ہے جسے ہم نے دیں صداٗئیں
جو قرار بن کے آیا اُسے کیوں نہ دیں دُعائیں
کیئے آرزو نے سجدے دل نے نظر اُتاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے
ہم جیسے کہاں تم کو طلبگار ملیں گے

کیسے یہ کہیں تم سے ہمیں پیار ہے کتنا
آنکھوں کی طلب بڑھتی ہے دیکھیں تمہیں جتنا

اس دنیا میں کم ایسے پرستار ملیں گے
ہم جیسے کہاں تم کو طلبگار ملیں گے

دل کی جگہ سینے میں محبت ہے تمھاری
اب میری ہر اک سانس امانت ہے تمھاری

ہم بن کے تمہیں پیار کی مہکار ملیں گے
ہم جیسے کہاں تم کو طلبگار ملیں گے

ہم جیسے کہاں تم کو طلبگار ملیں گے

Shares: