سیلاب، بربادی اور بھارتی آبی وار۔۔۔ پاکستان کب عالمی عدالت انصاف کا در کھٹکھٹائے گا؟
"بھارت کی آبی جارحیت نے پاکستان کو سیلابی بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا حکومت عالمی عدالت انصاف میں اس ماحولیاتی و انسانی جرم پر آواز بلند کرے گی؟”
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستان ایک بار پھر تباہ کن سیلابوں کی زد میں ہے مگر اس بار معاملہ صرف قدرتی آفت تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے پیچھے بھارت کی مبینہ آبی جارحیت کے شواہد نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی رہنماؤں کے بیانات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں کہ پانی کو پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور ستمبر 2025 کے حالیہ سیلاب نے ان خدشات کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2016 کے اُوڑی حملے کے بعد کہا تھا کہ "خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے” ، جو پاکستان کے خلاف براہِ راست دھمکی کے طور پر دیکھا گیا۔ اسی تسلسل میں 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارتی وزیر نتن گڈکری نے اعلان کیا کہ پاکستان کو جانے والا پانی روک کر ہم اسے جموں و کشمیر اور پنجاب میں استعمال کریں گے۔ یہاں تک کہ بھارتی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل کانول جیت سنگھ ڈھلن نے کھلے عام کہا کہ ہم فصلوں کے موسم میں پانی روک کر اور مون سون کے دوران اچانک چھوڑ کر پاکستان میں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ اس سال بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ اب بحال نہیں ہوگا۔ یہ بیانات اس حکمتِ عملی کی نشاندہی کرتے ہیں جسے ماہرین "واٹر وار” یا پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی قرار دیتے ہیں۔
ستمبر 2025 میں بھارت نے دریاؤں اور ڈیموں کے سپیل وے اچانک کھول دیے جس کے نتیجے میں پنجاب میں قیامت خیز سیلاب آیاجو اب سندھ کی طرف رواں دواں ہے۔ پنجاب میں بستیاں، کھیت اور مویشی سب کچھ پانی میں بہہ گئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق صرف پنجاب میں 55 افراد ہلاک ہوئے جبکہ ملک بھر میں مجموعی ہلاکتیں 800 سے بڑھ گئیں۔ متاثرین میں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ایک ہزار سے زائد افراد زخمی اور دو سو سے زیادہ لاپتہ ہیں۔ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوئی اور چاول، کپاس، مکئی اور گنے کی فصلیں بہہ گئیں۔ صرف زرعی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے، جو پہلے ہی مہنگائی اور درآمدی انحصار کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔
اس تباہ کن سیلاب سے ہزاروں مکانات مکمل طور پر منہدم ہوئے، سکول اور درجنوں صحت مراکز زیرِ آب آ گئے۔ دیہات کے دیہات اجڑ گئے اور ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ پینے کے صاف پانی اور طبی سہولتوں کی عدم دستیابی نے وبائی بیماریوں کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ذہنی صحت بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق بہت سے متاثرین پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) میں مبتلا ہیں جبکہ گاؤں کے لوگوں کے الفاظ میں "موت ہمارے گھروں میں داخل ہو گئی ہے”۔
یہ سوال یہاں شدت سے ابھرتا ہے کہ کیا یہ محض قدرتی آفت تھی یا بھارتی آبی جارحیت کی منظم کوشش؟ کلائمیٹ چینج نے بلاشبہ بارشوں کی شدت بڑھائی ہے مگر بھارتی ڈیموں سے اچانک پانی چھوڑنے نے اسے انسانی ساختہ آفت میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان کے لیے یہ محض ریلیف سرگرمیوں کا معاملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی اور مستقبل کے وجود کا سوال ہے۔
پاکستان کے پاس عالمی فورمز پر جانے کے کئی راستے موجود ہیں مگر تاحال وہ عملی طور پر غیر متحرک دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلا اور مؤثر قدم عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں جانا ہے۔ انڈس واٹر ٹریٹی 1960 کے تحت بھارت کو پانی چھوڑنے کے فیصلوں کا بروقت نوٹس دینا لازمی ہے، مگر پاکستان کے دعوے کے مطابق ایسا نہیں ہوا۔ بھارتی وزراء اور فوجی افسران کے بیانات اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی نیت موجود ہے۔ یہ ثبوت ICJ میں پیش کیے جا سکتے ہیں تاکہ بھارت کو عالمی سطح پر جواب دہ بنایا جا سکے۔
دوسرا راستہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آواز بلند کرنا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایک قرارداد پیش کرے جس میں بھارتی آبی جارحیت کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔ اس موقع پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، عرب لیگ اور دوست ممالک کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے تاکہ دنیا کی توجہ بھارت کے اس رویے پر مرکوز ہو۔
تیسرا قدم بھارت پر معاشی دباؤ ڈالنے کا ہے۔ پاکستان کو امریکہ، یورپی یونین اور چین جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں کے سامنے یہ معاملہ اٹھانا ہوگا کہ بھارت کی برآمدات کو محدود یا مشروط کیا جائے۔ خاص طور پر بھارتی ٹیکسٹائل اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے تاکہ بھارت کو پانی کے بطور ہتھیار استعمال کرنے سے باز رکھا جا سکے۔
چوتھا اور نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو بھارتی پراکسی جنگوں کا معاملہ بھی اس تناظر میں اجاگر کرنا چاہیے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کی مداخلت کے شواہد عالمی برادری کے سامنے رکھے جائیں۔ غیر ملکی میڈیا، صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان علاقوں میں لے جا کر دکھایا جائے کہ بھارت کس طرح پاکستان کو مختلف محاذوں پر کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے اب تک ریلیف سرگرمیوں پر توجہ دی ہے مگر عالمی سطح پر قانونی اور سفارتی محاذ پر خاطر خواہ اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ سیلاب کے متاثرین کو عارضی پناہ گاہوں، خوراک اور ادویات کی ضرورت ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ایک قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اگر آج پاکستان نے عالمی عدالت انصاف اور دیگر عالمی اداروں کا در نہ کھٹکھٹایا تو کل یہ سیلاب ہر سال ایک نئے المیے کے ساتھ لوٹتے رہیں گے اور ہم صرف ملبے پر آنسو بہاتے رہیں گے۔
پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت دونوں کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ سوال یہ نہیں کہ سیلاب کب آئے گا بلکہ یہ ہے کہ ہم کب اس آبی وار کے خلاف اپنی آواز دنیا تک پہنچائیں گے۔ بھارت کی آبی جارحیت اب محض خدشہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بن چکی ہےاور اس کے خلاف قانونی، سفارتی اور معاشی محاذ پر مؤثر حکمت عملی کے بغیر پاکستان کا وجود بار بار اسی طرح کے امتحان سے دوچار ہوتا رہے گا۔
ریفرنسز:
1.Modi, N. (2016). Statement after Uri attack – "Blood and water cannot flow together.” (BBC, The Hindu)
2.Gadkari, N. (2019). "We will stop water to Pakistan and use it in Punjab.” (Times of India)
3.Dhillon, K. J. Singh (Retd. Lt. Gen.). Interview on using rivers against Pakistan (The Print, 2020).
4.Shah, A. (2025). Statement on Indus Water Treaty suspension – "This treaty will never be restored.” (Hindustan Times)
5.NDMA Pakistan Flood Report, September 2025.
6.UN Climate Change & South Asia Flooding Report, 2024–25.