سیلاب، آفات، مہنگائی. عوام کا مقدر کیوں؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستان ایک ایسی ریاست بنتا جا رہا ہے جہاں عوام ہر سال قدرتی آفات، حکومتی نااہلی، اور معاشی بدحالی کے شکنجے میں کَس دیے جاتے ہیں۔ جونہی مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں، شہر ڈوبنے لگتے ہیں، نالے ابلنے لگتے ہیں اور انتظامیہ کی غفلت آشکار ہو جاتی ہے۔ 2025 کے حالیہ مون سون سیزن نے ایک بار پھر راولپنڈی، اسلام آباد، جہلم، چکوال اور آزاد کشمیر کے عوام کو بے رحم سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہزاروں افراد محفوظ مقام کی تلاش میں در بدر ہیں، کئی جانوں کا چراغ گل ہو چکا اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ مگر ریاستی ڈھانچے میں کوئی لرزش، کوئی احتساب اور کوئی پائیدار حل اب تک دکھائی نہیں دیتا۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں 230 ملی میٹر سے زائد بارش نے نالہ لئی کو دھاڑتا دریا بنا دیا۔ کٹاریاں، گوالمنڈی اور ڈھوک کھبہ کے مکین پانی میں پھنس گئے۔ پانی کی سطح 20 فٹ تک جا پہنچی اور ندی نالوں کی طغیانی نے شہری نظام کو مفلوج کر دیا۔ خطرے کے سائرن بج گئے، ریسکیو ادارے متحرک ہوئے، فوج سے مدد طلب کی گئی اور ایک دن کی چھٹی کا اعلان کر دیا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہر سال یہی ہونا ہے تو پھر کیا ریاست نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا؟ کیا اربوں کے بجٹ صرف رپورٹوں اور اشتہارات کی نذر ہوتے رہیں گے؟

چکوال میں کلاؤڈ برسٹ سے 423 ملی میٹر بارش نے تباہی کی نئی داستان رقم کی۔ بچوں سمیت کئی افراد جاں بحق ہوئے، سینکڑوں زخمی اور مکانات زمین بوس ہو گئے۔ قدیم مذہبی مقام کٹاس راج مندر بھی پانی میں ڈوب گیا۔ علاقہ مکین چھتیں چھوڑ کر اونچی جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے اگرچہ دعویٰ کیا ہے کہ تمام ادارے فیلڈ میں موجود ہیں مگر سچ یہ ہے کہ عوام کی نظروں میں یہ اقدامات ہمیشہ دیر سے آتے ہیں اور ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ضرور ہوتی ہے لیکن زخمیوں کو دوا، راشن اور رہائش کی سہولیات اب بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔

این ڈی ایم اے کا بتانا ہے کہ 26 جون سے اب تک مون سون بارشوں کے نتیجے میں ملک بھر میں 178 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 85 بچے بھی شامل ہیں جبکہ اس دوران 491 افراد زخمی ہوئے۔ صرف 24 گھنٹوں میں 63 اموات رپورٹ ہوئیں۔ لاہور، فیصل آباد، ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ جیسے شہروں میں یہ المناک واقعات پیش آئے۔ بارش کے پانی نے گھروں کو روند ڈالا، بچوں کو چھین لیا اور مویشیوں تک کو بہا لے گیا۔ مگر حکمران اشرافیہ صرف پریس کانفرنسوں اور رسمی دوروں تک محدود ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر سال یہی کیوں ہوتا ہے؟ کیا نالہ لئی کی صفائی کے دعوے محض دکھاوا تھے؟ کیا واسا اور بلدیاتی ادارے صرف تنخواہوں کے لیے بنائے گئے ہیں؟ پاکستان میں مون سون کوئی نئی شے نہیں۔ ہر سال جون سے ستمبر تک بارشوں کی پیشگوئی پہلے ہی ہو جاتی ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ہر سال حکومت "اچانک” جاگتی ہے۔ جب تک گلیاں ندی نالوں میں نہ بدل جائیں اور لوگ مدد کے لیے چیخ نہ اٹھیں، حکومتی مشینری متحرک نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال کسی آفت کا نہیں بلکہ ریاستی نااہلی کا ثبوت ہے۔

اگر ہم بھارت، بنگلہ دیش یا انڈونیشیا جیسے ممالک کی مثال دیکھیں تو وہاں بھی بارشیں ہوتی ہیں، مگر شہری منصوبہ بندی، ڈرینج سسٹم، ابتدائی وارننگ سسٹم اور انخلاءکا پلان اس قدر منظم ہوتے ہیں کہ جانی و مالی نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں الٹا نظام ہے ،یہاں پہلے آفت آئے، پھر اجلاس بلائے جائیں، پھر بیان دیے جائیں اور آخر میں میڈیا سے کہا جائے کہ "صورتحال قابو میں ہے”۔ مگر عوام جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہےکیونکہ وہ ہر سال کیچڑ، مچھروں، وبائی امراض اور بے گھر ہونے کی اذیت جھیلتے ہیں۔

مہنگائی کا عذاب اس سے علیحدہ ہے۔ جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے، وہاں سبزیاں نایاب، دودھ مہنگا اور پینے کا پانی خریدنا پڑ رہا ہے۔ تعمیر نو کا خواب ایک دور افتادہ وعدہ بن چکا ہے۔ امدادی پیکج اگر آتے بھی ہیں، تو ان میں سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور کرپشن کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ عوام بے بسی سے صرف یہی سوال دہراتے ہیں کہ آخر ہم کب تک آفات کا سامنا کرتے رہیں گے؟ کیا ہم محض موسمی قربانی کے بکرے ہیں؟ یا پھر یہ نظام ہی ہمیں قربانی کے لیے پیدا کرتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں آفات کو مواقع میں بدلنے کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ یہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کے بجائے ان کا استعمال سیاسی فائدے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا فرض ہوتا ہے کہ پہلے سے نقشہ جات، خطرناک علاقوں کی نشاندہی اور بروقت نقل مکانی کے پلان تیار رکھے۔ مگر یہاں سب کچھ بعد میں ہوتا ہے اور اس تاخیر کی قیمت عوام اپنی جان، مال اور عزت سے ادا کرتے ہیں۔ اگر NDMAs اور PDMAs صرف رپورٹیں بنانے اور غیرملکی فنڈنگ کی وصولی تک محدود رہیں تو حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔

پاکستانی عوام اب اس اذیت کو معمول سمجھنے لگے ہیں۔ سیلاب ہو یا زلزلہ، گیس کی لوڈشیڈنگ ہو یا مہنگائی، ہر سانحہ صرف "خبر” بن کر رہ جاتا ہے۔ اصل تبدیلی صرف اس وقت آئے گی جب ریاست اپنی ذمہ داری قبول کرے، مقامی حکومتوں کو فعال بنائے، وسائل کو شفاف طریقے سے استعمال کرے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جدید سائنسی اور ڈیجیٹل نظام اپنائے۔ بصورت دیگر، ہر مون سون، ہر زلزلہ اور ہر آفت ایک بار پھر یہی سوال دہراتی رہے گی کہ "سیلاب، آفات، مہنگائی… آخر عوام کا مقدر ہی کیوں؟”

Shares: