تعارف
سید ریاض جاذب جنوبی پنجاب کے معتبر صحافی ہیں جن کی خدمات سوشل سیکٹر میں بھی نمایاں رہی ہیں۔ تین دہائیوں پر محیط صحافتی سفر میں انہوں نے قومی و بین الاقوامی اداروں میں کام کر کے اپنی دیانتداری اور تجربے سے منفرد مقام بنایا۔ اس وقت وہ باغی ٹی وی کے لیے تحقیقی و تجزیاتی مضامین لکھ رہے ہیں جو قارئین میں خاصی پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں سیلاب، معیشت اور زندگی کی بقا کا امتحان
تحریر: ریاض جاذب (جاذب نامہ)
جنوبی پنجاب ایک بار پھر سیلابی ریلوں کی زد میں ہے اور اس بار کی تباہ کاریاں پہلے سے زیادہ شدید ثابت ہو رہی ہیں۔ ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں پانی نے کھیتوں، بستیوں اور بنیادی ڈھانچے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گھروں سے بے دخل لاکھوں افراد سڑکوں اور عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ روزگار کے ذرائع اجڑنے سے ان کا مستقبل غیر یقینی ہو چکا ہے۔
محکمہ موسمیات اور مقامی انتظامیہ کے مطابق دریائے چناب اور ہیڈ تونسہ کے قریب پانی کے اخراج نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ صرف ملتان ڈویژن میں پانچ لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا جبکہ تقریباً تین لاکھ لوگ اپنے روزگار اور مکانات سے محروم ہو گئے۔ ڈیڑھ سو کے قریب دیہات میں کھڑی فصلیں مکمل طور پر برباد ہو گئیں۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں بھی یہی منظرنامہ ہے، جہاں سرکاری رپورٹوں کے مطابق چار لاکھ سے زیادہ افراد متاثر اور اڑھائی لاکھ ایکڑ اراضی زیرِ آب آ چکی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق اس لہر میں اب تک پنجاب میں 51 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سے تقریباً آدھے کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ انفراسٹرکچر کی تباہی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ کئی علاقوں میں سڑکیں اور رابطہ پل بہہ گئے، بجلی کے کھمبے اکھڑ گئے اور بعض بستیاں مکمل طور پر باقی ملک سے کٹ گئیں۔
امدادی سرگرمیوں کے باوجود متاثرین کی مشکلات کم نہیں ہو سکیں۔ خیموں اور ضروری سامان کی کمی ہے، پینے کے صاف پانی اور ادویات کا شدید فقدان ہے اور بچے بیماریوں کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔
سب سے بڑا نقصان زرعی معیشت کو ہوا ہے۔ دریاؤں کے کنارے تقریباً سات کلومیٹر چوڑے علاقے میں کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ پنجاب بزنس فورم کے اعداد و شمار کے مطابق چاول کی 60 فیصد، گنے کی 30 فیصد اور کپاس کی 35 فیصد پیداوار ضائع ہو گئی ہے۔ وزارت غذائی تحفظ نے وارننگ دی ہے کہ اس نقصان کے نتیجے میں ملک میں چاول کی کمی اور برآمدات میں کمی ناگزیر ہو جائے گی۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر پانی جلد نہ اترا تو مزید فصلیں بھی برباد ہو سکتی ہیں، جس سے کسانوں کا اعتماد مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا۔
مجموعی طور پر 13 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی زیرِ آب آ چکی ہے۔ یہ نہ صرف کسانوں بلکہ پاکستان کے غذائی تحفظ کے لیے بھی خطرہ ہے۔ پہلے ہی گندم اور کپاس کی کمی، درآمدات پر انحصار اور مہنگائی جیسے مسائل موجود ہیں، اب ان پر یہ سیلاب مزید بوجھ ڈال رہا ہے۔ اگر کسانوں کو فوری سہارا نہ دیا گیا تو زرعی پیداوار سنبھلنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
معاشی ماہرین اور کسان تنظیموں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کے لیے ہنگامی ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے۔ بلا سود قرضے، بیج اور کھاد کی مفت فراہمی اور زمین کی بحالی کے لیے فنڈز قائم کیے جائیں تاکہ کسان دوبارہ کھیتی باڑی کے قابل ہو سکیں۔
موسمیات کے ماہرین نے آئندہ دنوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے جس سے فلیش فلڈ کے نئے خدشات جنم لے سکتے ہیں۔ انتظامیہ نے عوام کو محتاط رہنے اور محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ آیا ہم ہر سال آنے والی ان تباہ کاریوں سے سبق سیکھنے پر تیار ہیں یا نہیں۔
یہ وقت محض ریلیف فراہم کرنے کا نہیں بلکہ مستقبل کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی بنانے کا ہے۔ اگر آبی ذخائر کے نظام کو بہتر نہ بنایا گیا، ڈیموں اور بیراجوں کی مینجمنٹ درست نہ ہوئی اور متاثرہ آبادیوں کے لیے پائیدار منصوبے نہ بنائے گئے تو سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک مستقل معاشی تباہی بن کر ہمارے سامنے کھڑا رہے گا۔