سیلاب، دہشت گردی اور قومی یکجہتی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان اس وقت دوہری آفت کی لپیٹ میں ہے ایک طرف تباہ کن سیلاب اور دوسری طرف وحشیانہ دہشت گردی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ . مسلسل بارشوں اور دریاؤں کے طغیانی نے شہروں، دیہاتوں، گاؤں اور کھیتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا جبکہ دہشت گردی کے تازہ حملوں نے عوام کے شعور اور جذبے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ بحران نہ صرف جان و مال کو تباہ کر رہا ہے بلکہ قومی یکجہتی کے عزم کو بھی شدید زَک پہنچا رہا ہے۔ اس صورتحال نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا خطرہ دراصل بین الصوبائی سیاسی انتشار اور تقسیم ہے جو ہمیں ایک قوم کے طور پر متحد ہونے سے روک رہا ہے۔ سیلاب کی تباہی نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور روزگار کے مواقع ختم ہو رہے ہیں۔ یہ حالات شدت پسندوں کے لیے موقع فراہم کرتے ہیں کیونکہ غربت اور مایوسی ہی شدت پسندی کو ہوا دیتی ہیں۔ لہٰذا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ بحالی کے منصوبوں پر بھی فوری توجہ ضروری ہے. متاثرہ علاقوں میں فوری امداد، روزگار کے مواقع اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی نہ صرف عوام کے دکھ کم کریں گے بلکہ شدت پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مدد دیں گے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ پاکستان کی تاریخ دہشت گردی کے خلاف طویل جدوجہد سے عبارت ہے۔ ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے فوجی آپریشنز نے واضح کر دیا کہ جب ریاست نے پوری قوت سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تو ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ تاہم آج وفاقی اور صوبائی سطح پر پالیسیوں میں تضاد اس کامیابی کو دُھندلا رہا ہے۔ وفاقی حکومت دہشت گردی کے خلاف سخت گیر رویے کی حامی ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ فتنہ الخوارج تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے دروازے بند کیے جائیں گے۔ اس کے برعکس خیبرپختونخوا کی صوبائی قیادت مذاکرات اور محدود کارروائیوں پر زور دیتی ہے، یہ متضاد پالیسیاں انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو کمزور کر رہی ہیں اور عوام میں تذبذب پیدا کر رہی ہیں۔ جب صوبائی قیادت فوجی کارروائیوں کو غیر ضروری قرار دیتی ہے تو عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر کس پر بھروسہ کیا جائے ، ریاست کی فوج پر یا سیاسی قیادت پر؟ یہی الجھن دہشت گردوں کے لیے سب سے بڑے کامیابی ہے کیونکہ انہیں انتشار کے ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔

ماضی کے تجربات ہمیں سبق دیتے ہیں کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں ٹی ٹی پی سے گفت و شنید اور جنگجوؤں کی واپسی کی پالیسی نے عارضی سکون تو دیا مگر طویل المدت امن برقرار نہ رہ سکا، ہزاروں جنگجوؤں کی واپسی اور انہیں بسانے کی کوشش نے بالآخر دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے اور آزادانہ کارروائیوں کا موقع فراہم کیا۔ یہ تلخ سبق ثابت کرتا ہے کہ شدت پسندوں کے سامنے نرم رویہ اختیار کرنا بسا اوقات ملک کے مفاد میں نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی حکومت نے اپنے مؤقف میں سختی اپنائی ہے، مگر کے پی کی قیادت کے بعض بیانات، مثلاً افغان طالبان سے براہِ راست رابطوں کے اعلانات، وفاقی موقف کو کمزور کر رہے ہیں اور آئینی دائرہ کار کو بھی الجھا رہے ہیں۔ ایسے بیانات محض سیاسی اختلاف کو وسیع نہیں کرتے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی متزلزل کرتے ہیں. جب صوبائی سرکردہ شخصیات فوجی کارروائیوں کو غیر ضروری یا انسانیت سوز قرار دیتی ہیں تو سادہ آدمی کے ذہن میں الجھن جنم لیتی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت کمزور پڑ جاتی ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال اس پورے عمل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ بظاہر وہاں کی حکمتِ عملی میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں دکھائی جاتی ہیں مگر کئی بار یہ نمائشی نوعیت کی ثابت ہوئی ہیں۔ سیکیورٹی حلقوں کے مطابق بعض اوقات طالبان نے کارروائیوں کا ڈرامہ رچا کر حقیقی مؤثر کارروائی سے گریز کیا اور اسی خلا سے دہشت گرد سرحد پار آ کر ہمارے اندرونی محاذوں کو ہدف بناتے رہے۔ اسی پس منظر میں غیر قانونی افغان مہاجرین کا معاملہ بھی شدید تنازع بن گیا ہے، وفاق ان مہاجرین کو سیکیورٹی خطرہ قرار دے کر ان کی واپسی پر زور دیتا ہے(جو پاکستان کے امن کیلئے واقعی حقیقی خطرہ ہیں ) جبکہ خیبرپختونخوا کی حکومت اسے انسانی بنیادوں پر زبردستی نکاسی قرار دے کر مخالفت کرتی ہے۔ یہ اختلاف انتہاپسند پروپیگنڈے کو مواد فراہم کرتا ہے اور وہ ریاستی رویے کو عوام دشمنی کے طور پر پیش کر کےدہشت گردوں کے لئے عوامی ہمدردی پیدا کرنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔

ان تمام پیچیدگیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی محض صوبائی یا وفاقی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک قومی چیلنج ہے۔ اگر سیاسی اختلافات اور پوائنٹ اسکورنگ کو ترجیح دی گئی تو یہ لڑائی کبھی مکمل طور پر جیتی نہیں جا سکے گی۔ دہشت گرد کسی سیاسی جماعت یا صوبائی حکومت کو نہیں دیکھتے بلکہ ان کا واحد ہدف پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ اسی لیے وفاق اور صوبوں کو ایک میز پر بیٹھ کر ایک جامع، شفاف اور مربوط پالیسی مرتب کرنا ہوگی جو عسکری اور سول اقدامات کا متوازن امتزاج ہو، عوام میں اعتماد بحال کرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلا خوف و خطر اپنا کام سر انجام دینے کے قابل بنائے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جب پاکستان متحد ہوا تو دشمن پسپا ہوا اور جب ہم منتشر ہوئے تو وہ دوبارہ نمودار ہو گیا۔ لہٰذا یہ وقت سیاسی انا کو پسِ پشت ڈال کر ایک قوم کی طرح کھڑے ہونے کا ہے۔ وفاق اور خیبرپختونخوا کو فوری طور پر ایک عملی اور آئینی طور پر ہم آہنگ حکمت عملی طے کرنی چاہیے، جس میں بحالی کے منصوبے بھی شامل ہوں تا کہ سیلاب سے متاثرہ عوام کو روزگار اور تحفظ ملے اور شدت پسندی کے پھیلاؤ کے لیے مواقع کم ہوں۔ سیاسی جماعتیں اگر آج بھی قومی مفاد کی بجائے مخاصمت کا راستہ اپنائیں گی تو دہشت گردی اسی دراڑ سے گھس کر ہماری اینٹ سے اینٹ بجا دے گی۔

آخر میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور دیگر صوبائی رہنماؤں کو واضح پیغام دینا ضروری ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں پاک فوج، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو سبوتاژ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی گی۔ ریاستِ پاکستان، آئین اور قوم کی سلامتی سب سے مقدم ہیں۔ اس جنگ میں سمجھوتہ ممکن نہیں۔
پاکستان زندہ باد،
افواجِ پاکستان پائندہ باد۔

Shares: