جب کوئی قوم اپنی ہی فوج پر انگلیاں اٹھانے لگے تو وقت ثابت کرتا ہے کہ قومیں اندر سے ٹوٹنے لگتی ہیں
آج فوج کو سیاست کے شور میں کھڑا کرکے نشانے پر رکھا جا رہا ہے ہر کوئی اپنے مفاد کی آگ بھڑکھانے میں مصروف ہے
آج سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان بڑھتے فاصلوں نے صورتحال خطرناک بنا دی ہے ریاستیں بیانیوں پر نہیں اتحاد پر چلتی ہیں
جو اس ملک کے ہر انچ کی حفاظت کرتا ہے، اس کے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ نہیں، بات چیت، احترام اور ذمہ داری کا راستہ اپنانا ہو گا
اگر فوج سلامت ہے تو پاکستان سلامت ہے اور اگر پاکستان سلامت ہے تو ہم سب سلامت ہیں سیاستدان اپنی پالیسیوں زبان اور رویوں پر اَزسرِنو غور کریں
تجزیہ شہزاد قریشی
وطن عزیز دنیا میں ایک ایسا ملک ہے جو آزمائشوں میں گِھرا رہا دہشتگردی، انتہا پسندی، بیرونی دباؤ، داخلی انتشار مگر ایک ستون ایسا تھا جو ہر وقت کھڑا رہا۔ ایک ادارہ ایسا جو راتوں کی نیندیں چھوڑ کر قوم کی نیند محفوظ بناتا رہا وہ ادارہ ہے پاکستان کی فوج جو نہ کسی فرد کی ہے، نہ کسی پارٹی، نہ کسی سوچ کی، یہ 25 کروڑ لوگوں کی فوج ہے۔ اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی، اس کی ڈھال، اس پہچان مگر افسوس آج اسی فوج کو سیاست کے شور میں کھڑا کرکے نشانے پر رکھا جا رہا ہے۔ بیانیے ایسے بن رہے ہیں جیسے فوج دشمن ہو اور سیاست دان ریاست کے ٹھیکیدار سوشل میڈیا نے نفرت کو ایسے پروان چڑھایا جیسے آگ کے سامنے خشک گھاس رکھ دی جائے۔ ہر کوئی اپنے مفاد کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہے مگر سوچ کوئی نہیں رہا کہ اس آگ میں آخر جلتا کون ہے؟ (پاکستان) وطن عزیز کی فوج دنیا کی چند سب سے ڈسپلن اور موثر افواج میں شمار ہوتی ہے۔ امریکہ سے لیکر یورپ تک طاقت ور ملک اس پروفیشنل ازم کو تسلیم کرتے ہیں ہم جس فوج کو روز تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہی فوج آج بھی دنیا بھر میں ایک مضبوط فورس کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ وہی فوج ہے جس نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر دہشتگردی کا وہ طوفان روکا جس نے ملک کو جکڑ لیا تھا یہ وہی فوج ہے جس نے ماؤں کے بیٹے کھوئے مگر پاکستان اور قوم کو بچائے رکھا۔ آج سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان بڑھتے فاصلوں نے صورتحال خطرناک بنا دی یے۔ ایک طرف سیاست اپنے بیانیوں کے نشے میں ہے دوسری طرف ادارے ریاست کو سنبھالنے کی کوشش میں، لیکن ریاستیں بیانیوں پر نہیں اتحاد پر چلتی ہیں اور جب کوئی قوم اپنی ہی فوج پر انگلیاں اٹھانے لگے تو وقت ثابت کرتا ہے کہ قومیں اندر سے ٹوٹنے لگتی ہیں۔ اگر سیاست اور فوج ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوں تو نقصان صرف ایک کا نہیں پورے پاکستان کا ہوتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ اختلاف رائے دشمنی نہیں ہوتا مگر اداروں کو متنازعہ بنانا یہ دشمنی ہے وطن سے بھی اور اپنے مستقبل سے بھی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو لمحہ فکریہ لینا ہو گا کہ ہم اپنے ہاتھوں سے کیا آگ لگا رہے ہیں؟ کیا ہم دوبارہ اس ملک کو انتشار کے اس گڑے میں دھکیلنا چاہتے ہیں جس سے نکلنے میں ہمیں دہائیاں لگیں؟ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان اپنی پالیسیوں، اپنی زبان اور اپنے رویوں پر اَز سرِ نو غور کریں جو ادارہ ہمیں دہشتگردی سے نکال کر لایا جو اس ملک کے ہر انچ کی حفاظت کرتا ہے اس کے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ نہیں بات چیت، احترام اور ذمہ داری کا راستہ اپنانا ہو گا۔ وطن عزیز کو مزید لڑائیاں نہیں چاہیں اسے امن چاہیے، اتفاق چاہیے، ترقی چاہیے یہ ملک ہم سب کا ہے اور فوج بھی۔ اب وقت ہے کہ ہم سب ملکر اسی ایک سچ کو پہچانیں اگر فوج سلامت ہے تو پاکستان سلامت ہے اور اگر پاکستان سلامت ہے تو ہم سب سلامت ہیں۔








