امریکی میگزین "فارن پالیسی” نے اپنے حالیہ شمارے میں ہندوستانی جمہوریت کی حالت کو بے نقاب کیا ہے، جس کے مطابق نریندر مودی کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے بعد سے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ہندوستان کی جمہوری درجہ بندی میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ مختلف بین الاقوامی اداروں جیسے کہ فریڈم ہاؤس، وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ، اور اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے ہندوستان کی جمہوری حیثیت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارے ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے، اقلیتوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے دباؤ، اور حکومتی کنٹرول کی سیاست کی نشاندہی کر رہے ہیں۔"فارن پالیسی” کے مطابق، مودی کی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تیز کر دیا ہے، خاص طور پر اقلیتوں کے خلاف۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مودی نے ہندوستان کو ایک ہندو قوم پرست معاشرے میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں غیر ہندو آبادی کو پسماندہ کر دیا گیا ہے۔مودی کی حکومت میں پریس کانفرنسوں سے گریز کرنے کی روش بھی اپنائی گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ صرف اپنے ریڈیو شو نے ذریعے عوامی رابطے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طریقہ کار کی بدولت میڈیا کے ساتھ براہ راست رابطہ محدود ہو گیا ہے، جس سے عوام کو حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں جاننے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں مودی کی ابتدائی زندگی اور سیاسی کیریئر کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ خاص طور پر 2002 کےگجرات فسادات کے تناظر میں، جہاں ہزاروں مسلمان ہلاک ہوئے، مودی کی حکمرانی پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ مودی کی حکومت نے اس وقت تشدد کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔گجرات میں مودی کی حکومت کے دوران مذہبی تقسیم، اداروں کی تباہی، آمرانہ طرز حکمرانی، اور سیاسی مخالفین کی نگرانی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان کے دور میں متعدد ماورائے عدالت قتل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔”فارن پالیسی” کی رپورٹ کے مطابق، مودی کی انتظامیہ نے مخالفین کے خلاف سخت قوانین کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں کئی سیاسی مخالفین کو بغیر کسی مقدمے کے سالوں تک جیلوں میں رہنا پڑا۔ اس صورتحال نے ہندوستان میں اختلاف رائے کو ایک جرم بنا دیا ہے، جہاں بدعنوانی اور بے روزگاری کے مسائل نے مودی کی حکومت کی معاشی کامیابیوں کو متاثر کیا ہے۔بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے مودی کی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات اور ہندوستان کی جمہوری درجہ بندی میں کمی ایک نیا سوالیہ نشان ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ہندوستانی سیاست بلکہ عالمی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔

Shares: