بھارت کے سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بھارت کے سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کی آخری رسومات نئی دہلی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔ ان کی تدفین دریائے جمنا کے کنارے کی گئی، جہاں سرکاری حکام، سیاسی رہنما اور ان کے قریبی ساتھیوں نے شرکت کی۔منموہن سنگھ کی آخری رسومات کے دوران سیاسی اور عوامی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نگم بودھ گھاٹ پر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی چتا پر لکڑی ڈال کر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ فیملی کے افراد کے ساتھ ساتھ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے بھی اپنے والد کی طرح ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وداع کیا اور چتا پر لکڑی ڈالی۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی بڑی بیٹی نے ان کے ساتھ آخری وقت گزارا اور ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئیں۔ انہوں نے اس موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بھی بات کی، ڈاکٹر منموہن سنگھ کی فیملی نے ان کی آخری رسومات میں مکمل طور پر حصہ لیا، اور ان کے جسم کو کندھا دینے کے لیے راہل گاندھی سمیت کانگریس کے دیگر رہنماؤں نے بھی ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ساتھ دیا۔

نگم بودھ گھاٹ پر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی چتا پر آگ دی گئی، جہاں ان کی زندگی کے ساتھی، دوست، اور سیاسی رفقاء نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کے انتقال کے بعد بھارت کے مختلف شعبوں سے سیاستدانوں، اہم شخصیات، اور عوامی نمائندوں نے ان کی خدمات اور کردار کی تعریف کی اور انہیں یاد کیا۔اس موقع پر بھارتی صدر دروپدی مرمو، وزیرِ اعظم نریندر مودی، کانگریس کے پارلیمانی امور کی رہنما سونیا گاندھی، کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، راہل گاندھی، راجیہ سبھا کے اسپیکر جگدیپ دھنکھڑ، لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا، وزیرداخلہ امت شاہ، وزیردفاع راجناتھ سنگھ، مرکزی وزیر کرن ریجیجو، بی جے پی کے صدر جے پی نڈا، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی، جنرل سکریٹری کے سی وینو گوپال، اور ریاستی وزیروں نے بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وفات پر نہ صرف بھارت کی سیاسی جماعتوں نے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ بھوٹان کے راجا نے بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر غم کا اظہار کیا اور ان کی شخصیت کو سراہا۔ ان کے دورِ حکومت میں بھارت نے کئی اقتصادی اصلاحات کیں، اور ان کی اقتصادی پالیسیوں کا اثر دنیا بھر میں محسوس کیا گیا۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کا شمار بھارت کے عظیم ترین سیاسی رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔ ان کی سادگی، اخلاص اور پالیسیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے انتقال نے نہ صرف بھارت بلکہ عالمی سطح پر بھی سیاسی اور اقتصادی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
منموہن سنگھ جمعرات کو 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی وفات پر بھارت بھر میں 7 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے، اور حکومت نے ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے انتقال کو ایک عظیم قومی نقصان قرار دیا۔
منموہن سنگھ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے انہیں نئی دہلی کے انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ آخری سانسیں لیں۔ منموہن سنگھ کی بیماری اور کمزوری کی اطلاعات گزشتہ کچھ ماہ سے آ رہی تھیں، جس کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔منموہن سنگھ نے بھارت کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا اور وہ 2004 سے 2014 تک بھارت کے وزیرِ اعظم رہے۔ ان کے دورِ حکومت میں بھارت نے اقتصادی ترقی کی اہم بلندیوں کو چھوا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ ان کی قیادت میں بھارت نے متعدد اہم اقتصادی اصلاحات کیں اور عالمی سطح پر ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔

ان کے انتقال کے بعد ملک بھر میں سیاسی جماعتوں اور عوام نے ان کے کردار اور خدمات کو سراہا۔ وزیراعظم نریندر مودی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں منموہن سنگھ کی گہری محبت اور ملک کے لیے ان کی خدمات کا ذکر کیا۔منموہن سنگھ کی سیاسی زندگی کی کامیاب داستانوں میں ان کی اقتصادی پالیسیوں، بھارتی معیشت کو عالمی سطح پر متعارف کرانے اور بھارت کے معاشی تعلقات کو مستحکم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ تاہم، ان کی صحت نے انہیں حالیہ برسوں میں عوامی سطح پر نظر آنے سے روکے رکھا اور وہ سیاست سے نسبتاً دور ہوگئے۔ان کی وفات بھارت کی سیاست کا ایک غمگین باب بند ہونے کے مترادف ہے، اور ان کے انتقال سے ایک دہائیوں پر محیط سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور یادگار حصہ ختم ہوگیا ہے۔منموہن سنگھ کی آخری رسومات میں شریک تمام افراد نے ان کی خدمات، ان کی سادگی اور دیانت داری کو یاد کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔











