آزادی ایک نعمت ہے اس کی جس قدر قدر کی جائے کم ہے۔

آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا کرتی بلکہ اس کے لیے مسلسل اور بےتحاشہ قربانیاں دینا پڑتی ہے تب جا کر منزل کا حصول ہوتا ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں نے دوقومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان سے آزادی کا نعرہ رستہ خیز بلند کیا اور جہد مسلسل کے بعد اللہ تعالٰی نے انہیں ہندو بنیے سے آزادی عطا کی۔

اس آزادی کے لیے بچوں،بوڑھوں، جوانوں، عورتوں اور عفت مآب بیٹیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ خون کا ایک دریا عبور کرکے لوگ پاکستان پہنچے اور انہوں نے اس پاک سرزمین پر سجدہ شکر کے لیے سر جھکا دیے۔

عورتوں نے اپنی عزت و عصمت بچانے کے لیے کنوؤں اور دریاؤں میں چھلانگیں لگا کر اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کیں، بچوں کو نیزوں کی انیوں میں پرویا گیا، جوانوں کو بیدردی سے شہید کیا گیا، خمیدہ کمروں والے بوڑھے والدین کے سامنے ان کے جواں اور گھبرو فرزندوں کو ذبح کیا گیا، عورتوں کے سامنے ان کے سہاگ اجاڑ دیے گئے، مساجد و مدارس اور ان میں قائم کتب خانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا، وعظ، ذکروفکر اور درس و تدریس کی محافل و مجالس جو ایک عرصہ درازسے قائم تھیں اجڑ گئیں، مکانات و محلات اور کاروباری مراکز ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیے گئے، ہندو، سکھ اور دیگر مسلمان دشمنوں نے تعصب اور اسلام دشمنی میں جو ہوسکا وہ جی بھر کر کیا اور مسلمانوں کا قتل عام کرکے خون کی ندیاں بہائیں،

قرآن مجید اور دینی کتب جو جل جانے سے محفوظ رہ گئیں ان کی توہین کی، ایسی عفت مآب بیٹیاں جنہیں آسمان نے بھی نہ دیکھا تھا اگر دیکھ لیتا تو شرما جاتا انہیں کی عصمت دری کی گئی ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جسے لکھنے سے قلم قاصر ہے۔

سب نے سب ظلم و ستم برداشت کرلیے کہ ہم ایک اسلامی ملک کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو ریاست مدینہ منورہ کی مثال ہوگا جہاں پر خلافت راشدہ کا نظام ہوگا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا میر کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اس ملک کے لیے مسلمانان ہند نے جس مقصد کے لیے قربانیاں دیں تھیں وہ پس پشت ڈال کر گورے انگریزوں کا نظام ان پر دوبارہ مسلط کردیا گیا۔

جہاں دیگر طبقات کے لوگوں نے آزادی وطن کے حصول کے لیے قربانیاں دیں وہاں پر علماء اہل حدیث کسی سے پیچھے نہ رہے بلکہ مسلم زعماء کے کندھوں سے کندھا ملا کر چلے اور بغیر کسی طمع یا شہرت کے بھرپور جدوجہد کی۔

23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ لاہور اور میں تاریخی اجلاس شروع ہوا جس میں ہندوستان بھر کے کے دور دراز کے علاقوں اور شہروں سے مسلم لیگ کے مندوب ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے اس اجلاس میں میں سینکڑوں کی تعداد میں جہاں مسلم قائدین نے شرکت کی وہاں بے شمار اہل حدیث علماء نے بھی شرکت فرما کر اس تاریخی اجلاس کو کامیاب کیا۔

خصوصا امام العصر حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمت اللہ علیہ متوفی 1956، مولانا عبد المجید سوہدری رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1959، محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ متوفی جون 1985، مولوی مولانا سید محمد اسماعیل غزنوی متوفی 1960، مولوی مولانا محمد عبداللہ ثانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1983، مولانا محمد اکرم خان محمدی رحمہ اللہ کلکتہ متوفی 1968، مولانا عبداللہ الباقی بنگال رحمہ اللہ، خان مہدی خان زمان رحمہ اللہ کھلابٹ ہزارہ، میاں عبدالحق برج جیوے کا ضلع ساہیوال، چوہدری عبدالکریم زیروی، چوہدری عبدالستار فیروزپوری، مولانا محمد عبد اللہ رحمہ اللہ اور مولانا فضل الہی وزیرآبادی ایک ملنگ کے روپ میں شریک تھے کانفرنس میں بانی پاکستان کی صدارت میں مولوی فضل الحق بنگالی نے جسے شیر بنگال بھی کہا جاتا تھا قرارداد پیش کی

اس قرارداد کی تائید بانی پاکستان نے ایک بھرپور تاریخی خطاب فرمایا جس کے شعلہ بیان خطیب مقرر بہادر یارجنگ حیدرآبادی نے فرمائی اجلاس کیا تھا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔۔۔ دور حد نگاہ تک انسان ہی انسان نظر آتے تھے مسلمانوں نے بڑے جوش وخروش اور جذبہ ولولہ سے قرارداد کی تصدیق و توثیق کی۔ ہندو پریس کی نوازش سے ہی قرارداد لاہور قرارداد پاکستان قرار پائی۔ پاکستان کے حصول کے لیے لیے اہل حدیث علماء نے بہت زیادہ قربانیاں دیں۔ ہندوستان بھر کے اہل حدیثوں کو مسلم لیگ میں شمولیت اور قیام پاکستان کی تحریک کی تائید کرنے کی تلقین کی گئی ۔

اس سلسلے میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا محمد اکرم خان محمدی کلکتہ، مولانا عبد اللہ الکافی، مولانا عبد الباقی، مولانا علامہ راغب احسن ڈھاکہ، مولانا محمد حسین میرٹھی، خان محمد زمان خان کھلابٹ ضلع ہزارہ، مو لا نا محمد ادریس تتریلہ ضلع تہکال بالا پشاور، پشاور کے ارباب خان عبدالمجید خان، سندھ کے پیر احسان اللہ راشدی پیرآف جھنڈا، مولانا سید محمد اسماعیل غزنوی، مولانا عبدالمجید سوہدروی، مولانا سید عبدالغنی شاہ، مولانا ابو الحسن محمد یحی امرتسری، محدث العصر حضرت حافظ محمد گوندلوی، مولانا علی محمد صمصام، مولانا محمد شبلی فیروزپوری، مولانا محمد عبداللہ ثانی، مولانا محمد یوسف کمیرپوری، مولانا اللہ بخش کمیرپوری، چوہدری عبد الکریم زیروی، چودھری عبدالستار فیروزپوری، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا محمد سلیمان روہڑی، حافظ علی بہادر بمبئی، مولاناعبداللہ کھپیاں والوی، مولوی مولانا محمد یونس دہلوی، میاں عبدالحق برج جیوے خان ضلع ساہیوال، حاجی محمد انور ایم ایل اے فیصل آبادی، چوہدری محمد عبداللہ آف اوڈانوالہ، امیرالمجاہدین صوفی محمد عبداللہ اللہ، مولانا فضل الہی وزیر آبادی رحمۃ اللہ، مولاناعبدالحکیم ندوی، قصوری غازی عبدالغنی مجاہد، میاں عبدالعزیز مال واڈہ لاہور، مولانا محمد یوسف کلکتوی، مولانا عبدالمجید دینا نگری، حکیم نور دین فیصل آبادی، میر عبدالقیوم فیصل آبادی،مولانا عبدالقادر روپڑی، مولانا محمد اسماعیل روپڑی، میاں محمود علی قصوری، خواجہ محمد صفدر، مولانا محمد عبداللہ اوڈ، شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری اور دیگر اعیان اہل حدیث کی قیام پاکستان میں خدمات نہ صرف قابل فراموش بلکہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں اہل حدیث کے کے بچے بچے نے قیام پاکستان کے لیے بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے اپنی گردنیں کٹوا کر قیام پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔

تحریک آزادی اورعلماءاہلحدیث:جمع و ترتیب:- عبدالرحمن ثاقب سکھر

ماخوذ از
( تحریک پاکستان میں علماء اہل حدیث کا حصہ نمبر 366,367,368، بحوالہ سیاسیات برصغیر میں اہل حدیث کا حصہ صفحہ نمبر 60,61)

Shares: