عادت ہی پڑ گئی ہے ہر نقل کرنی ہے
اچھے سے واسطہ ہے نہ برے سے کوئی نفرت

یکم اپریل
غداروں کی غداروں ،لالچیوں کے لالچ اور ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی وجہ سے غرناطہ کی گلیاں مسلمانوں کے خون سے بھری پڑی تھیں۔صلیبی فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو خون گھوڑوں کے گھٹنوں تک آتا تھا لیکن ان بھیڑیوں کی ہوس نہیں ختم ہورہی تھی اور وہ چن چن کر مسلمانوں کو شہید کر رہے تھے ۔

کتنوں کو پکڑ کر لے گئے اور ایسی ایسی روح فرسا سزا دی کہ یقین نہیں آتا کہ یہ صلیبی بھی مسلمان ہیں ۔
کسی کو تختے پہ یوں لٹایا جاتا کہ سر نیچے جھکا ہوتا ٹانگیں اوپر کی طرف باندھ کر پانی کی بالٹی منہ پہ گرائی جاتی ۔پھر گردن اور تھوڑی کے درمیان لمبا سریا لگا دیا جاتا ،کسی کے گلے میں کس کر کڑا ڈال دیا جاتا ،جسم سے گوشت، ناخن نوچے جاتے ،آنکھیں نکال لی جاتیں ۔

مسلمانوں کی اکثریت شہید کچھ وطن چھوڑ کر بھاگ گئے کچھ قید ہو کر درد ناک سزائیں جھیل رہے تھے کچھ مارے ڈر کے اپنے گلے میں صلیبیں ڈال کر نام بھی عیسائیوں والے رکھ کر اپنی شناخت کو چھپا بیٹھے تھے کہ مبادہ کہیں کسی کو پتہ چلے ہم مسلمان ہیں تو ہمیں بھی شکنجے میں جکڑ لیا جائے ۔
مسلمان چھپ کر نماز پڑھتے تھے ۔قرآن مجید بھی چھپا لئے گئے تھے ۔

گرجوں میں جانا شروع کردیا تھا ۔
اسلام کا نام بھی گھروں کی کنڈیاں لگا کر آہستہ اور خوف زدہ آواز میں لیا جاتا تھا کہ کوئی سن لے۔

کافر بڑا شاطر تھا اسے امید تھی کہ مسلمان اب بھی ہوں گے کہیں نہ کہیں ۔
سو انھیں اندھیروں میں مسلمانوں کے کانوں میں ایک ایسی آواز پڑی کہ جس نے ان کے ڈوبتے دلوں کو سہارا دیا ،ان کے مرجھائے چہرے کھل اٹھے، انھیں بہت دنوں بعد سکون شا ملا ،خوف کم ہوا اور اس اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا ملتا محسوس ہوا ۔

اعلان تھا کہ غرناطہ سپین میں جتنے بھی مسلمان ہیں جہاں کہیں بھی وہ سب بندرگاہ پہ اکٹھے ہو جائیں وہاں جہاز آ ئے گا جو انھیں لے کر مسلمان ملک میں چھوڑ آئے گا ۔
مسلمانوں نے اسے نوید سحر سمجھا ،دلوں کی بے قراری کو کچھ اطمینان ہوا ،گھر بار وطن کے بدلے میں جان کی امان ،خوف زدہ زندگی سے چھٹکارا اور مذہب کی آزادی کا سودا کچھ کم نہ لگا ۔
سو گلے میں ڈالی صلیبیں اتار پھینکیں جو پہلے ہی سانپ کی مانند ڈستی تھیں ، خوشی خوشی سب بندرگاہ پہ اکٹھے ہونا شروع ہو گئے ۔

جب سب اکٹھے ہو کر چلے ہوں گے تو دل کچھ اداس بھی ہوں گے مگر آنکھوں میں آزادی مذہب کے سہانے خواب سجائے وہ بحری جہاز میں بیٹھے سوچ رہے ہوں گے اب تو چھپ کر نماز نہیں پڑھنی ہوگی سرعام اونچی آواز میں تلاوت کیا کریں گے ۔
لا الہ الا اللہ کی تسبیح کریں گے ۔لیکن یہ جہاز جب عین اندر کے بیچ میں گہرے پانی میں پہنچ گیا تو ظالم دہشت گرد صلیبیوں نے جہاز کو ڈبو دیا ۔
بچے بوڑھے، جون عورتیں سب کی چیخیں دلوں کو چیرتی تھیں لیکن ظالموں کے دل میں رحم نہ آیا اور وہ پچاس ہزار مسلمان یکم اپریل کو ڈوب گئے ۔

یعنی یکم اپریل کو اسپین سے مسلمانوں کا خاتمہ کردیا گیا ۔
ان ظالموں کے دل تو کیا لرزتے اپنی دھوکہ دہی اور جھوٹ پہ اس قدر خوش ہوئے کہ باقاعدہ محل میں فول اپریل کے نام سے جشن منایا گیا ۔
پھر یہ جشن ہر سال منایا جانے لگا جو بڑھتے بڑھتے پورے یورپ میں منایا جانے لگا ۔

لیکن وہ تو کفار ہیں ان کے دل بھی شیطان کا گھر ہیں بات تو ہماری ہے ہم مسلمان ہیں ہمیں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیوار کی مانند قرار دیا ۔ہمیں ایک جسم سے تشبیہ دی پھر ہم کیسے اپنے ہی بہن بھائیوں کے قاتلوں کے ساتھ مل کر ان کے قتل کا جشن منا سکتے ہیں؟
ہم کیسے اپنے ہی شہید بہن بھائیوں کو فول (بےوقوف) کہہ سکتے ہیں؟

ہم کیسے اس دیوار کی اینٹوں کے گرانے پہ خوش ہو سکتے ہیں جس دیوار کا حصہ ہم خود ہیں؟
نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔ہمارے لئے تو یکم اپریل یوم سیاہ ہے ۔

ہمارے دل کٹتے ہیں کہ اس دن ہمارے بہن بھائیوں کو دھوکہ دیا گیا جھوٹ بولا گیا اور انھیں سہانا خواب دکھا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
یکم اپریل کو جھوٹ بول کر منایا جاتا ہے ۔
جبکہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔

جھوٹے کے منہ میں قیامت کے روز آگ کی زبان ہوگی ۔پھر ہم کیوں جہنم کے دروازے کھولیں اپنے لئے ۔
اور میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہوتا ہے لیکن ہم جھوٹ بول کر کسی کو کہہ کر تیرا فلاں مر گیا ،فلاں کا ایکسیڈنت ہوگیا ،کتنی اذیت ہوتی ہے ،ہم کیوں کسی کو اپنی زبان سے غیر کر کے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کریں ؟

بس بات تھوڑی سی عقل استعمال کرنے کی ہے تھوڑا غور کرنے کی ہے ۔ہر چیز میں ہم دنیا کے جاہلوں سے نہیں مل سکتے ۔
تھوڑی دیر سوچیں کیا کفار بھی ہمارے ساتھ ہر دن مناتا ہے ؟

ہم ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا کی آبادی کا تیسرا حصہ ہیں لیکن دنیا کی گھٹیا ترین قوم ہندو بھی ہمارے ساتھ کوئی دن نہیں مناتی تو ہم تو پھر اس کائنات پہ سب سے اعلی قوم ہیں الحمداللہ ۔ہم کیوں نقل کریں ؟ بس ہمیں کفار کو کہنا چاہیئے
ہمارے لئے ہمارا دین اور تمہارے لئے تمہارا دین

یکم اپریل یوم سیاہ ———از———–عشاء نعیم

Shares: