22 خاندانوں سے آئی پی پیز تک،کب تک چلے گی یہ لوٹ مار؟

22 خاندانوں سے آئی پی پیز تک،کب تک چلے گی یہ لوٹ مار؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
14اگست1947ء کو برصغیر کی تقسیم کی بعد پاکستان معرض وجود میں آیا، اس آزادی کی جنگ میں بہت سے لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانے پیش کئے جوکہ پاکستان آزاد ہونے کے بعد بھی پاکستانیوں کی قربانیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، آئیے ذرا اس بات کاجائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ہمارے اسلاف کی بیمثال قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی عظیم مملکت پاکستان میں کیا واقعی پاکستانیوں کو حقیقی آزادی میسر ہے یاجس امید کی بنیاد پر اسلاف نے قربانیاں دی تھیں ان قربانیوں کا پھل ان کی نسلوں کاملا ؟

سب سے پہلے ذکر کرتے جنرل ایوب خان کے دور حکومت کا جسے پاکستان کی ترقی کا سنہری دور کہاجاتا ہے اس سنہری دور میں کس طرح پاکستان کی دولت پر ہاتھ صاف کئے گئے اور کیسے کرپشن کی ابتداء ہوئی 15جون 1964 کو ممبر قومی اسمبلی اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے بجٹ تقریر کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان( جو اس وقت متحدہ پاکستان تھامشرقی پاکستان علیحدہ نہیں ہواتھا)کی 60 سے 80 فیصد دولت پر صرف” 22 خاندان” قابض ہیں۔ ان کے مطابق 66 فیصد صنعتیں ، 79 فیصد بیمہ کمپنیاں اور 80 فیصد بینکوں کا سرمایہ صرف "بائیس خاندانوں” کے قبضے میں ہیں، محبوب الحق کے اس انکشاف کی بنیاد وزارت مالیات کے ایک اعلی افسر ظہیر الدین کی کریڈٹ کمپنی کی رپورٹ پر استوار کی گئی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ بینکوں نے عوام کی امانتوں میں سے جو روپیہ کاروباری طبقے کو ادھار دینے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اس میں بڑی بڑی رقوم چند خاندان کے افراد نکلوا کر لے جاتے ہیں اور نام بدل بدل کر ان سے استفادہ کرتے رہتے ہیں (بعد میں لی گئی رقوم معاف کرائی جاتی رہیں)

ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ 22 دسمبر 1957 کو صرف 23 شخصیات ایسی تھیں، جنہیں 33 کروڑ 83 لاکھ روپے بطور قرض دیا گیا تھا۔ 31 مارچ 1959 تک ان افراد کی تعداد بڑھ کر 31 اور 31 دسمبر 1961 تک41 ہو گئی۔ ان 41 افراد کو جو رقوم بطور قرض دی گئی تھیں وہ 62کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 1961 میں اسی بات کو منصوبہ بندی کمیشن کے شعبہ تحقیق کے سربراہ مسٹر آر ایچ کھنڈیکر نے آگے بڑھایا اور ان کی تحقیق کی بنیاد پر 64-1963 کے بجٹ میں وزیر خزانہ مسٹر محمد شعیب نے انکشاف کیا کہ بینکوں نے جو رقم ادھار کے لیے علیحدہ کر رکھی ہے اس سے صرف 20 خاندان مستفیض ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر محبوب الحق کے اس انکشاف کا ذو الفقار علی بھٹو نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جب انہوں نے 1968 میں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو ڈاکٹر محبوب الحق کی اس تقریر کو اپنی تحریک کا مرکزی نکتہ بنادیا۔ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا ایک اہم نعرہ بھی یہی تھا کہ اس ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول تھا کہ ذو الفقار علی بھٹو جیسا بڑا زمیندار جس کی پارٹی میں مصطفی جتوئی، مخدوم طالب المولی اور مصطفی کھر جیسے لاتعداد بڑے بڑے زمیندار تھے، اس نے بھی ووٹ کی سیاست اور عوامی مقبولیت کے لیے سرمایہ داری کے خلاف پارٹی پوزیشن اس حد تک لی کہ پیپلز پارٹی کے منشور کے چار بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ یہ تھا کہ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، یہ فقرہ بھٹو کی تقریروں کا جزوِلاینفق تھا۔ اور اس نعرے سے وہ اپنے جلسوں میں عوام کا لہو گرماتا تھا۔ آج نصف صدی گزرنے کے بعد اب ان بائیس خاندانوں کا دائر اثر بڑھ کر اس ملک کی ایک فیصد آبادی تک پھیل چکا ہے۔ یعنی24 کروڑ سے زائدلوگوں کی آبادی میں سے بائیس لاکھ لوگ ایسے ہیں جو اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ سرمائے پر قابض ہیں۔ اس کیفیت کو دنیا بھر میں "Elite Capture” یعنی اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کہتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں بجلی کےبھاری بلوں کے سبب عوام کی خودکشیاں معمول بن چکی ہیں ،مہنگی بجلی اور آئی پی پیز معاہدے درد سر بن گئے ، عوامی مشکلات اور ردعمل شدیدہوتاجارہاہے،پی ٹی آئی دور حکومت 2021 میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی تجدید پاور ڈویژن نے کی تھی۔پاور ڈویژن نے 2021 میں معاہدوں کی تجدید کیلئے مذاکرات کیے تھے

اب ذرا تھوڑی سی نگاہ ادھر بھی ڈال لیتے ہیں کہ کس دورِ حکومت میں آئی پی پیز کے ساتھ سب سے زیادہ معاہدے کیے گئے تو مسلم لیگ ن کے 2013 سے 2018 کے دور حکومت میں سب سے زیادہ 130 بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 48 کمپنیوں، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 35 کمپنیوں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں 30 کمپنیوں کے ساتھ بجلی بنانے کے طویل معاہدے کیے گئے۔انڈیپنڈنٹ پاورپلانٹس یعنی آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے باعث ہر سال اربوں روپے کی ادائیگی عوام سے وصول کیے گئے بجلی کے بلوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے نیپرا نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے ہیں اور کچھ کمپنیوں کے ساتھ 2057 تک کے معاہدے کیے گئے ہیں یعنی آئندہ 33 سال تک ان کمپنیوں کو ادائیگیاں جاری رہیں گی۔وزارت توانائی کے مطابق، گزشتہ 10 سال یعنی 2013 سے 2024 تک کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو 8 ہزار 344 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال میں آئی پی پیز کو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 1300 ارب ادا کیے گئے جبکہ رواں سال 2 ہزار 10 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔

پاکستانی عوام شاید یہ نہیں جانتی کہ ان آئی پی پیزکمپنیوں کے اصل مالکان کون ہیں؟ 68فیصدکمپنیاں تو حکمرانوں(شریف ، زرداری، اسٹبلشمنٹ)کی ملکیت ہیں ان کے علاوہ 8 فیصد پیپلز پارٹی رہنما 10 فیصد اسٹبلشمنٹ، 8 فیصد چین کے سرمایہ کار اور7 فیصدقطری عرب اور7 فیصد پاکستانی سرمایہ دارشامل ہیں ۔اب عوام سے ایک سوال ہے جب 68فیصدآئی پی پیزکمپنیوں کے تین مالک شریف ، زرداری، اسٹبلشمنٹ ہوں توان سے کئے گئے معاہدوں کے خلاف کون لب کشائی کرے گا؟

قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں چاہے وہ فوجی ہوں یا سویلین انہوں نے کوئی بھی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جو عوامی مفاد میں ہو یا عوام کے دکھوں کامداواکرنے کی کوشش کی گئی ہو،جنرل ایوب خان دور کے 22 خاندانوں اور موجودہ آئی پی پیزتک ہردور میں صرف عوام کوقربانی کابکرابنایا گیا ہے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کروایا گیاہے۔ 22 خاندان ملک کی معیشت پر قبضہ جما کر قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کی کمی کا باعث بنے۔ دوسری جانب آئی پی پیز کے مہنگے معاہدوں سے بجلی کے بل آسمان کوچھوگئے، لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پیدا کیا اور قومی خزانے پر بوجھ ڈالاگیا دونوں صورتوں میں عوام کی قربانیاں بڑھتی رہیں جبکہ چند افراد جو صرف حکمران خاندان ہیں یاپھر ان کے رشتے دار نے اپنی جیبیں بھریں.

ملک کی دولت چند خاندانوں اور سیاسی گٹھ جوڑوں کی لوٹ مار کا شکار ہوتی رہی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ عوام کی خاموشی نے اس ظلم کو پروان چڑھایا ہے، آئی پی پیز جیسے سیاسی گروہوں نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے، یہ لوٹ مار کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ سوال یہ نہیں کہ ملک کے وسائل کہاں جا رہے ہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ عوام کب تک اس بے انصافی کو برداشت کرے گی؟ تبدیلی صرف نعرے سے نہیں بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔عوام کی خاموشی ان ظالموں کی طاقت کا باعث ہے، جب تک عوام بیدار نہیں ہوں گے، یہ لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے گا،ملک کے وسائل عوام کی امانت ہیں، اس امانت کی خیانت کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے،تاریخ گواہ ہے کہ ظالم ہمیشہ شکست خوردہ ہوتے ہیں، یہ لوٹ مار کا دور بھی ایک نہ ایک دن ختم ہوگا، لیکن اس کے لیے عوام کو متحد ہو کرتوانا آواز بلند کرناہوگی،ورنہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور عوام یونہی سسکتی،جلتی ،کٹتی اور خودکشیاں کرکے مرتی رہے گی۔

Leave a reply