1958سے آج تک،پاکستانی عوام پر برستا قہر
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستانی عوام پر برستے اس قہر کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟ آئیے، آج تاریخ کے اوراق پلٹ کر اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ ظلم کے خلاف ایک ایسی فریاد ہے جو دہائیوں پر محیط ہے۔ یہ اس درد کی داستان ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں گھر کر چکا ہے، جب وہ مہنگائی، کرپشن، بے روزگاری، قرضوں، اور طاقتور اشرافیہ کے مظالم تلے دب کر زندگی گزارنے پر مجبور رہا۔ یہ اس قوم کے خون نچوڑنے والے نظام کے خلاف ایک احتجاجی نوحہ ہے۔ یہ سطریں عوام کے لیے ہیں، ان کی چیخوں، ان کے دکھوں اور ان کی بے بسی کی نمائندگی کرتی ہیں۔

جب ایک ماں بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست نہ کر پائے، جب ایک باپ بجلی کا بل دیکھ کر دل تھام لے، جب ایک نوجوان روزگار کی تلاش میں مایوس ہو جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ عوام سے جینے کا حق کس نے چھینا؟ مہنگائی، بیروزگاری، بدعنوانی اور ریاستی نااہلی نے عوام کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے جہاں جینا ایک بوجھ بن چکا ہے۔ آٹا، چینی، دال، سبزی اورسب کچھ عام انسان کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک شہری کی تحریر نے یہ درد یوں بیان کیاکہ "تنخواہ وہی، بل دوگنے، زندگی جہنم بن چکی ہے!”جس کا جواب واضح ہےکہ وہ اشرافیہ جو اس ملک کی دولت کو اپنی مٹھی میں قید کیے بیٹھی ہے ،ان میں سیاستدان، جرنیل، سرمایہ دار، جاگیردار ودیگرشامل ہیں جو عوام کے خون سے اپنی سلطنتیں قائم کرچکے ہیں۔

آئی ایم ایف سے لیے گئے اربوں ڈالر کے قرضے بظاہر معیشت کو سہارا دینے کے لیے ہوتے ہیں مگر اصل فائدہ کس کو پہنچتا ہے؟ کیا یہ پیسہ عوام کے بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوا؟ کیا اس سے ہسپتالوں میں ادویات آئیں؟ کیا روزگار کے مواقع پیدا ہوئے؟ نہیں! یہ قرضے صرف اشرافیہ کے بینک اکاؤنٹس میں پہنچتے ہیں اور ان کی عیاشیوں کا ایندھن بنتے ہیں۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو میں واضح کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط نے پاکستانی عوام پر مہنگائی کا بم گرایا، مگر اصل مجرم وہ حکمران ہیں جو ان رقوم کو عوام کی فلاح کے بجائے اپنی جائیدادیں بنانے پر لگاتے ہیں۔ آج گھی ،کوکنگ آئل،بجلی اور پٹرول کی قیمتوں نے عوام کی زندگی مفلوج کر دی ہے۔ قرضے عوام نے نہیں کھائے مگر ان کی قیمت عوام ہی چکا رہے ہیں۔

کرپشن وہ ناسور ہے جس نے اس قوم کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ گندم سکینڈل، شوگر مافیا، جعلی انوائسز، پانامہ لیکس وغیرہ یہ سب وہ زخم ہیں جو حکمران طبقے نے عوام کے اعتماد پر لگائے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے مطابق صرف گزشتہ برس 873 ارب روپے کی جعلی انوائسز پکڑی گئیں۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ یہ اس قوم کا خون ہے جو چوسا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک کی 30 شوگر ملز میں سے 9 شریف خاندان، 5 زرداری خاندان اور باقی ان کے اتحادیوں کے قبضے میں ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو اقتدار میں آکر قومی خزانے کو اپنے خاندانی کاروبار میں بدل دیتا ہے۔ اور جب کوئی سوال اٹھاتا ہے تو جواب آتا ہے کہ "یہ سب سیاست ہے!”

یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ایوب خان کے دور (1958-1969) سے جڑی ہوئی ہیں، جب محض 22 خاندانوں کو ملکی معیشت کا کنٹرول دیا گیا۔آدم جی، سیہگل، حبیب، داؤد، ولیکہ، منو، فینسی،نشاط اور کریسنٹ جیسے خاندان یہ وہ خاندان تھے جنہیں ریاستی سرپرستی میں زمینیں، صنعتیں اور وسائل دیے گئے۔ گوہر ایوب، جو ایوب خان کے بیٹے تھے نے اپنے سسر جنرل (ر) حبیب اللہ خٹک کے ساتھ مل کر یونیورسل انشورنس اور گندھارا انڈسٹریز جیسی کمپنیوں کو پروان چڑھایا۔ گوہر ایوب کی سیاسی و کاروباری سرگرمیوں نے ریاستی وسائل کو خاندانی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی راہ ہموار کی۔ بی بی سی کے مطابق اس دور کی پالیسیوں نے سرمایہ دارانہ اشرافیہ کو اتنی طاقت دی کہ آج تک وہ طبقہ مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔

یہ 22 خاندان آج 42 ہو چکے ہیں اور بعض تجزیہ کار اس تعداد کو اس سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔ اگرچہ درست اعداد و شمار کی تصدیق مشکل ہے، لیکن یہ حقیقت اب واضح ہو چکی ہے کہ اشرافیہ کے طبقات مسلسل پھیلتے جا رہے ہیں۔ شریف، زرداری، ترین، چوہدری اور دیگر خاندان ملکی معیشت، سیاست، زراعت، رئیل اسٹیٹ اور صنعت پر قابض ہو چکے ہیں۔ شوگر ملز، سیمنٹ، میڈیا ہاؤسز، بینکس ودیگر سب پر ان ہی کا راج ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ریاستی مشینری تحفظ دیتی ہےاور قانون ان کے دروازے پر دستک دینے سے گھبراتا ہے۔ گوہر ایوب کی سرپرستی میں ایوب خان نے معیشت کو چند خاندانوں کے حوالے کیا، جنہوں نے نجکاری کے نام پر قومی ادارے خریدے اور پھر سیاست میں آ کر ان اداروں کو اپنی جاگیر سمجھا۔ بی بی سی کی رپورٹس کے مطابق گوہر ایوب نے اپنے والد کے اقتدار سے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی اولاد کو بھی اسی ڈگر پر لگایا۔ ان کے بیٹے عمر ایوب آج بھی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سیاسی میدان میں متحرک ہیں۔ یہ نسل در نسل اقتدار اور دولت کے سوداگر ہیں جو پاکستانی عوام کی تقدیر کے فیصلے اپنے محلات میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔

کیا یہ ظلم کبھی ختم ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں گونجتا ہے۔ جب تک اشرافیہ سے اقتدار اور دولت کا ارتکاز ختم نہیں ہوتا، جب تک قانون سب کے لیے یکساں نہیں ہوتا، جب تک عوام کو ان کا جائز حق نہیں ملتا، تب تک یہ قہر جاری رہے گا۔ جب تک عوام سیاسی شعبدہ بازی اور شخصیت پرستی سے باہر نہیں نکلیں گے، باشعور نہیں ہوں گے، سوال نہیں پوچھیں گے، احتساب نہیں کریں گے، تب تک یہی چند خاندان اس ملک کی سانسوں پر قابض رہیں گے۔ لیکن تبدیلی کی کنجی عوام کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس ظلم کو سہتے رہیں گے یا اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

Shares: