چڑیا چُک سے چالان چُک تک، پنجاب کی سڑکیں شاہراہِ خوف بن گئیں
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
یہ شاید نوے کی دہائی کی بات ہے یا اس سے پہلے کی ہو۔ پنجاب کے ایک پرانے ریسٹ ہاؤس کو تھانہ بنا دیا گیا تھا۔ چھت کے روشن دان میں ایک چڑیا نے گھونسلا بنایا ہوا تھا۔ بچے تھے، جو بار بار گرتے تھے۔ SHO رحمدل تھا، خود اٹھاتا اور واپس رکھ دیتا۔ پھر سنتری لگ گیا، پھر روزنامچے میں اندراج ہوا کہ ’’چڑیا چُک‘‘ کی ڈیوٹی لگائی جائے۔ کئی SHO بدل گئے، کئی محرر آئے گئے، چڑیا کے بچے اُڑ گئے، گھونسلا خالی ہو گیا مگر ’’چڑیا چُک‘‘ کی ڈیوٹی روزانہ لگتی رہی۔ آخر ایک اعلیٰ افسر نے وزٹ کیا، پوچھا: ’’یہ چڑیا چُک کیا ہے؟‘‘ ساری کہانی سنی تو ہنستے ہنستے وہ ڈیوٹی ختم کر دی۔
آج 2025 ہے۔ چڑیا چُک تو ختم ہو گئی مگر اب ’’چالان چُک‘‘ کا نیا کھیل شروع ہو گیا ہے، اور یہ کھیل اتنا بے رحم ہے کہ چڑیا کے بچے بھی رونے لگیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں چھیاسٹھ ہزار سے زائد چالان، آٹھ کروڑ سے زیادہ جرمانے، چوبیس ہزار کے قریب گاڑیاں تھانوں میں بند، اٹھائیس ہزار ہیلمٹ چالان، اور صرف ہیلمٹ نہ پہننے پر ساڑھے چار ہزار مقدمات۔ یہ اعداد و شمار نہیں، ایک جنگ کے اعداد و شمار ہیں—وہ جنگ جو عوام کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔
میں نے خود اپنے شہر میں دیکھا کہ پولیس والا موٹر سائیکل روکتا ہے۔ ’’ہیلمٹ کہاں ہے؟‘‘ جواب: ’’گھر بھول گیا سر۔‘‘ ’’چالان کروں؟ دو ہزار کا۔‘‘ ’’سر کچھ کر لیں۔‘‘ ’’ہزار دے دو، جان چھوڑو۔‘‘ ایک منٹ میں معاملہ طے۔ نہ چالان ہوا نہ مقدمہ۔ یعنی جو ہزار دے سکتا ہے وہ بچ گیا اور جو نہیں دے سکتاتواس کا دو ہزار کا چالان، گاڑی ضبط، تھانے کے چکر، عدالت کے چکر۔ یہ قانون کی عملداری نہیں، غریب دشمنی ہے۔ مگر سڑک کنارے کھڑا وہی وردی والا پانچ سو سے ہزار لے کر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ قانون نافذ کر رہے ہیں یا نیا ٹیکس سسٹم چلا رہے ہیں؟
مریم نواز نے بالکل درست کہا تھا کہ حادثات بہت بڑھ گئے ہیں، ہیلمٹ لازمی ہونا چاہیے، ٹریفک قوانین پر عمل ہونا چاہیے۔ مگر جس بے رحمی اور جلد بازی سے یہ مہم چلائی گئی، اس نے اچھی نیت کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ یہی پولیس ہے جس نے دس سال تک چڑیا چُک کی ڈیوٹی لگائی، یہی پولیس ہے جس نے آر پی او کے بچوں کے لیے رات نو بجے گھوڑے بھیج دیے کیونکہ ’’صبح پانچ بجے‘‘ کا پیغام رات گیارہ بجے سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ اب یہی پولیس چوبیس گھنٹے میں چھیاسٹھ ہزار چالان کر رہی ہے؟ یہ کارکردگی نہیں، انتقام ہے۔
واٹس ایپ پر ویڈیوز گردش کر رہی ہیں: بوڑھا رو رہا ہے، بیٹی کی شادی کے پیسے جمع کیے تھے، موٹر سائیکل ضبط ہو گئی۔ خاتون بچوں سمیت سڑک پر کھڑی ہے، کار ضبط—شوہر دفتر سے آئیں گے تب گھر جائیں گی۔ طالب علم تھانے بیٹھا رو رہا ہے، یونیورسٹی جانے نکلا تھا۔ پورا پنجاب ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جو وزیراعلیٰ چند ماہ پہلے عوام کے دلوں پر راج کر رہی تھی، آج ایک فیصلے نے اسے زیرو پر لا کھڑا کیا ہے۔ عوام کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ سڑک پر نکلنا گناہ بن جائے۔
اچھی نیت کافی نہیں ہوتی۔ ہیلمٹ لازمی ہو مگر پہلے پانچ سو سات سو والا اچھا ہیلمٹ مارکیٹ میں دستیاب ہو۔ پہلے مہینے صرف وارننگ ہو، پھر چالان ہو۔ جو غریب دو ہزار نہیں دے سکتا اسے قسطیں دی جائیں۔ رشوت لینے والے کو فوری معطل کیا جائے۔ چالان کی رقم کا بڑا حصہ ہیلمٹ سبسڈی پر لگے۔ ورنہ یہ مہم چند دنوں میں ختم ہو جائے گی، جیسے چڑیا چُک ختم ہوئی تھی، مگر تب تک عوام کا اعتماد ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہو گا۔
مریم نواز صاحبہ، عوام کو سڑک پر خوفزدہ کر کے حادثات کم نہیں ہوتے۔ ہیلمٹ پہننا سکھانا پڑتا ہے، زبردستی نہیں کروایا جاتا۔ ورنہ تاریخ لکھے گی کہ ایک وزیراعلیٰ نے حادثات روکنے کے لیے مہم شروع کی، اور چند دنوں میں عوام نے انہیں دل سے نکال دیا۔ چڑیا چُک تو ختم ہو گئی تھی، اب چالان چُک کا کیا کریں گے؟









