بھارت، افغان جنگل سے پاکستانی چٹان تک
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
تاریخ انسانی گواہ ہے کہ قومیں اپنی عسکری طاقت پر فخر کرتی ہیں، مگر جب یہ طاقت حقیقت کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے تو بہت سے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ بھارت جو خود کو علاقائی طاقت اور عالمی سطح پر ابھرتا ہوا سپر پاور کہلوانے کا شوقین ہے، حالیہ مہینوں میں ایسی ہی ایک شرمناک صورتحال سے دوچار ہوا ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ بھارتی فضائیہ کے کئی اڑتے ہوئے جنگی طیارے گر کر تباہ ہوچکے ہیں (بھارتی جنگی جہازوں کو عام طور اڑتے ہوئے تابوت کہا جاتا ہے) جن میں جیگوار، ٹرینر جیٹس اور دیگر شامل تھے۔ یہ واقعات محض اتفاق نہیں بلکہ بھارتی عسکری نظام کی گہری کمزوریوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بھارت کی فضائیہ کو ایسی ناکامیوں کا سامنا پہلے بھی ہوا ہے۔ 1962 کی چین کے ساتھ جنگ میں بھارتی فضائیہ نے اپنی ناکامی کا مظاہرہ کرچکی ہے ،جب اس کے طیارے چینی حملوں کے سامنے بے بس ثابت ہوگئے تھے۔ اسی طرح 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی بھارتی فضائیہ کو پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھانا پڑا، جہاں ایم ایم عالم جیسے پاکستانی پائلٹس نے بھارتی غرور خاک میں ملایا ،بھارتی جیٹس کو گرا کر تاریخ رقم کردی۔ حالیہ 2025 کی مختصر جنگ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول پاکستانی شاہینوں نے آٹھ بھارتی طیارے تباہ کئے جن میں رفال ،مگ ودیگر شامل تھے، اسی تسلسل کی ایک کڑی ہیں۔ یہ ناکامیاں نہ صرف بھارتی عسکری طاقت کے دعوؤں کو بے نقاب کرتی ہیں بلکہ ان کی ٹریننگ، مینٹیننس اور ٹیکنالوجی کی خامیوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔

اس عسکری ناکامی کے بعد بھارتی قیادت، خاص طور پر وزیر اعظم نریندرامودی ایک شدید ذہنی دباؤ اور انتقامی ذہنیت کا شکار نظر آیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ ناکامی کے بعد قائدین اکثر جذباتی فیصلے کرتے ہیں جو مزید تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ 1971 کی جنگ کے بعد جب بھارت نے پاکستان کو تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کی، تو اس کی قیادت نے فتح کا نشہ چڑھایا، مگر اس سے پہلے 1962 میں چین کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد نہرو کی حکومت شدید پریشانی میں مبتلا ہوئی تھی۔

آج کی صورتحال میں بالاکوٹ حملے کی ناکامی کے بعد سے بھارتی قیادت کی ذہنی حالت اسی طرح کی ہے۔ 2019 کے بالاکوٹ واقعے میں بھارتی جیٹس کو پاکستانی فضائیہ نے ناکام بنا دیا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ شکست اب تک بھارتی قیادت کے ذہنوں میں تازہ ہے، جو انہیں انتقامی کارروائیوں کی طرف دھکیل رہی ہے۔ مگر یہ ذہنی دباؤ انہیں منطقی فیصلوں سے دور کر رہا ہے اور نتیجتاً بھارت کی عالمی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت پاکستان کے خلاف براہ راست جنگ لڑ سکتا ہے؟ جس کا جواب واضح ہے کہ نہیں کیونکہ بھارت کی کمزور معیشت، داخلی تقسیم، عالمی رسوائی کا خوف اور سرمایہ کاروں کی مخالفت اسے ایسی مہم جوئی سے روکتی ہے۔ تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو بھارت کی معیشت ہمیشہ سے ہی اس کی عسکری مہم جوئیوں کی راہ میں رکاوٹ رہی ہے۔ 1999 کی کارگل جنگ میں، جب بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی تھی تو بھارتی معیشت پر شدید دباؤ پڑا، اور عالمی دباؤ نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔

آج 2025 میں بھارت کی جی ڈی پی گروتھ کم ہو رہی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور داخلی سطح پر مذہبی اور علاقائی تقسیم عروج پر ہے۔ کشمیر، آسام،تری پورہ ،ناگالینڈ اور پنجاب میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ چکی ہیں جو 1947 کی تقسیم کے بعد سے چلی آ رہی ہیں۔ عالمی سطح پر بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کا سامنا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹس میں درج ہے۔ سرمایہ کار خاص طور پر امریکی اور یورپی کمپنیاں، جنگ کی صورت میں بھارت سے نکل جائیں گی، جیسا کہ 2020 کی چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے بعد دیکھا گیا۔ یہ سب عوامل مل کر بھارت کو براہ راست جنگ سے روکتے ہیں کیونکہ ایسی جنگ نہ صرف معاشی تباہی لائے گی بلکہ اس کی داخلی استحکام کو بھی ختم کر دے گی۔

تو براہ راست جنگ نہ لڑ سکنے کی صورت میں بھارت نے متبادل راستہ اختیار کیا جو ہے افغان اور ایرانی سرزمین کا استعمال۔ بھارت نے افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کو مالی امداد دے کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جبکہ ایران کی سرحدوں سے بھی جاسوسی اور سبورسیو ایکٹیویٹیز کو ہوا دی جارہی ہے۔ یہ حکمت عملی نئی نہیں بلکہ تاریخی طور پر بھارت نے پراکسی وارز کا سہارا لیا ہے۔

1971 کی جنگ میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کو تربیت اور اسلحہ دے کر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جو بالآخر پاکستان کی تقسیم کا باعث بنی۔ اسی طرح 2001 کے بعد افغانستان میں، بھارت نے شمالی اتحاد اور دیگر گروہوں کو سپورٹ کیا جو پاکستان کی سرحدوں پر دہشت گردی کا ذریعہ بنے۔ حالیہ برسوں میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را (RAW) نے افغان سرزمین سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ ایران کے چابہار اور سرباز علاقوں سے بھی سرگرمیاں چل رہی ہیں۔

2016 میں پاکستان میں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، اس کی ایک زندہ مثال ہے، جہاں ایک حاضر سروس بھارتی نیول افسر کو ایرانی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے جاسوسی اور دہشت گردی کے واضح ثبوتوں سمیت سمیت پکڑا گیا ،جس نے خود بھی اعتراف کیا کہ وہ دہشت گردی کا نیٹ ورک چلارہاتھا، پاکستانی حکام کے مطابق کلبھوشن یادیو ایران کے سرحدی علاقے سرباز سے پاکستان میں داخل ہوا، جہاں وہ بلوچستان میں دہشت گرد نیٹ ورک چلاتا رہا.

افغان گروہوں کی مالی بنیاد ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ یہ گروہ بنیادی طور پر منشیات، اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت پر قائم ہیں۔ افغانستان کی افیون کی پیداوار دنیا کا تقریباً 90 فیصد ہے، جو 1980 کی دہائی میں سوویت جنگ کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ اس زمانے میں مجاہدین کی مالی معاونت کے لیے افیون کی تجارت کو ایک ذریعہ بنایا گیا تھا اور آج بھی طالبان سمیت مختلف گروہ اسی معیشت پر انحصار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند سو ملین ڈالر کے عوض یہ گروہ دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے دی جانے والی مالی معاونت، جو کئی ملین ڈالر تک جاتی ہے، انہی گروہوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ تاہم یہ انتہائی خطرناک کھیل ہے کیونکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ پراکسی گروہ اکثر اپنے آقاؤں کے خلاف بھی پلٹ جاتے ہیں۔

بھارت کے لیے یہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ جو دہشت گرد آج پاکستان پر حملے کر رہے ہیں، کل زیادہ رقم کے بدلے بھارت پر پلٹ سکتے ہیں۔ کرائے کے قاتل بے وفا ہوتے ہیں۔ امریکہ کی مثال سامنے ہے، جس نے 1980 کی دہائی میں مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا، مگر بعد میں یہ گروہ القاعدہ بن کر امریکہ کے خلاف ہو گئے۔ اسی طرح بھارت کی سپورٹ والے گروہ، جیسے ٹی ٹی پی یا بی ایل اے، اگر چین یا ایران سے زیادہ رقم ملی تو بھارت کی طرف مڑ سکتے ہیں۔ یہ بھارت کی اپنی سلامتی کے لیے ایک ٹائم بم ہے۔

اس سب کے باوجود پاکستان کی عسکری دفاعی لائن انتہائی مضبوط ہے۔ پاکستان کی فوج ہر محاذ پر چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ تاریخی طور پر، 1948 کی کشمیر جنگ سے لے کر 1965 اور 1971 تک، پاکستان کی فوج نے محدود وسائل کے باوجود دشمن کو روکا ہے۔ آج لائن آف کنٹرول ،مشرقی اور مغربی سرحدوں پر پاک فوج کی موجودگی بھارت اور اس کی پراکسیز کو کسی بھی مہم جوئی سے روکتی ہے۔

دوسری طرف افغانستان کی صورتحال بگڑ چکی ہے کیونکہ یہ ایک "جنگل” بن چکا ہے جہاں دہشت گرد گروہ پیسے کے بل پر بدلتے ہیں۔ 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد غیر مستحکم حالات نے یہ صورتحال مزید پیچیدہ کر دی ہے۔ اس غیر یقینی ماحول میں بھارت کی پراکسی حکمت عملی مزید خطرناک ہو گئی ہے کیونکہ یہ گروہ کسی بھی وقت رخ بدل سکتے ہیں اور خطے کو مزید آگ میں دھکیل سکتے ہیں۔

آخر میں ہم یہ بتاتے چلیں کہ پاکستان ہر طوفان اور مشکلات کے بعد مضبوط ہو کر نکلتا آیاہے۔ 1947 کی تقسیم سے لے کر آج تک، پاکستان نے ہر چیلنج کا سامنا کیا اور ابھرا۔ یہ ملک نہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے زندہ ہے بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بھی ہے جوترقی کی منازل طے کررہا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایمان، قربانی اور اتحاد پر ہے۔ پاکستان کی فوج، عوام اور قیادت نے بارہا ثابت کیا ہے کہ مشکلات انہیں توڑ نہیں سکتیں بلکہ مزید مضبوط کرتی ہیں۔

پاکستان کی سرزمین ایک چٹان ہے، جو ہر حملے کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت کی پراکسی جنگیں، عالمی دباؤ اور داخلی مسائل اسے کبھی بھی پاکستان کے خلاف براہ راست کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ وقت گواہ ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی، عسکری اور نظریاتی طاقت کے بل پر ہمیشہ سرخرو رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔انشاءاللہ
پاک فوج زندہ باد،پاکستان پائندہ باد

Shares: