ماسکو سے گوادر تک. نئی راہیں، نئے امکان
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
ایک خبر کے مطابق پاکستان اور روس نے توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ ترجمان او جی ڈی سی ایل کے مطابق روس کے دورے پر گئے پاکستانی وفد کی سینٹ پیٹرزبرگ میں گیزپروم حکام سے ملاقات ہوئی، جس میں توانائی کے شعبے میں مشترکہ منصوبوں اور شراکت داری پر غور کیا گیا۔ ترجمان نے بتایا کہ پاکستان اور روس نے اقتصادی تعاون کے نئے مواقع کی تلاش پر زور دیا اور طے پایا کہ او جی ڈی سی ایل اور گیزپروم ممکنہ منصوبوں کی مل کر نشاندہی کریں گے۔ یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت اور اسٹریٹجک تعلقات کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ ہے۔

اس تناظر میں اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو 1948ء میں سفارتی تعلقات کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان اور روس (سابقہ سوویت یونین) کے تعلقات سرد جنگ کے دوران محدود اور بعض اوقات کشیدہ رہے لیکن 1970ء کی دہائی میں پاکستان سٹیل ملز کے قیام جیسے منصوبوں نے تعاون کی راہ ہموار کی۔ 21ویں صدی کے آغاز خاص طور پر 2010ء کے بعد توانائی، دفاع، تجارت اور تعلیم کے شعبوں میں متعدد معاہدوں نے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کیا۔ 2024ء تک کم از کم 20 سے 30 اہم معاہدوں یا مفاہمت کی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط ہو چکے ہیں، جن میں پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن، دفاعی تعاون اور بارٹر ٹریڈ شامل ہیں۔

اسی تسلسل میں سینٹ پیٹرزبرگ کی حالیہ ملاقات توانائی کے شعبے میں تعاون کی ایک نئی مثال ہے، جہاں پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن، جس پر 2016ء میں اتفاق اور 2021ء میں توثیق ہوئی، 2.5 بلین ڈالر کے منصوبے کے طور پر نمایاں ہے۔ روس نے پاکستان کو LNG درآمد کے لیے 1500 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی حمایت بھی کی ہے جو پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور روس کے خطے میں اقتصادی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے اہم ہے۔

یہی رجحان دفاعی شعبے میں بھی نظر آتا ہے، جہاں 2016ء میں مشترکہ فوجی مشقوں "دروجبا” اور چار ایم آئی۔35 ہیلی کاپٹروں کی فراہمی نے خطے میں جغرافیائی سیاسی توازن کو تقویت دی، خاص طور پر جب پاکستان روایتی اتحادیوں سے ہٹ کر نئے اسٹریٹجک شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔ تجارت و سرمایہ کاری میں بھی پیش رفت ہوئیہے، 2024ء میں ماسکو میں منعقدہ پہلے پاک روس تجارتی فورم میں بارٹر ٹریڈ معاہدے کے تحت پاکستان 20 ہزار ٹن چاول برآمد کرے گا جبکہ روس 20 ہزار ٹن چنے فراہم کرے گا۔

اسی تسلسل میں دسمبر 2024ء کے 9ویں بین الحکومتی کمیشن اجلاس میں انسولین کی تیاری، تعلیمی تعاون اور دوطرفہ تجارت کے فروغ سمیت 8 معاہدوں پر دستخط ہوئے جو دوطرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہ تمام پیش رفتیں پاکستان اور روس کے تعلقات کو ایک وسیع تر جغرافیائی تناظر میں بھی اہم بناتی ہیں، خاص طور پر وسط ایشیائی ریاستوں کے حوالے سے، جہاں روس ایک کلیدی کھلاڑی ہے۔ پاکستان کی گوادر بندرگاہ وسط ایشیائی ممالک کے لیے تجارت کا اہم راستہ بن سکتی ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے فریم ورک کے تحت دونوں ممالک خطے میں استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اور روس کی یوریشین اکنامک یونین (EAEU) کے درمیان ممکنہ تعاون خطے کے اقتصادی منظر نامے کو تبدیل کر سکتا ہے۔

تاہم ان مثبت رجحانات کے باوجود موجودہ عالمی اور علاقائی حالات ان تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی جو مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا باعث ہے، پاک روس تعاون کو متاثر کر سکتی ہے، کیونکہ روس ایران کا اتحادی ہے اور پاکستان ایران کے ساتھ سرحدی اور تاریخی تعلقات رکھتا ہے۔ اگرچہ پاکستان غیر جانبداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن مغربی دباؤ یا علاقائی عدم استحکام توانائی منصوبوں یا سرمایہ کاری میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔

اسی طرح امریکہ کی علاقائی پالیسیاں خاص طور پر چین اور روس کے خلاف حکمت عملی، پاکستان کے لیے چیلنجز ہیں کیونکہ پاکستان امریکی مالیاتی اداروں پر انحصار کرتا ہے۔ امریکی پابندیوں کا خوف پاک روس معاہدوں کے نفاذ میں رکاوٹ بن سکتا ہے، لیکن ایک امکان یہ بھی موجود ہے کہ پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت اور SCO کے ذریعے تعاون اس دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔

اسی ضمن میں بھارت کی پاکستان کے خلاف پراکسی وار، خاص طور پر افغانستان اور بلوچستان میں مبینہ مداخلت، ایک حساس معاملہ ہے کیونکہ روس کے بھارت کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں۔ تاہم، روس نے پاکستان کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے جس کی مثال دفاعی معاہدے اور مشترکہ فوجوی مشقوں کی صورت میں موجود ہے۔ بھارت کی پراکسی سرگرمیاں اگرچہ علاقائی استحکام کو متاثر کرتی ہیں، لیکن پاک روس تعلقات پر براہ راست اثر کا امکان کم ہے کیونکہ دونوں ممالک اپنے مشترکہ مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔

علاوہ ازیں دیگر چیلنجز جیسے کہ افغانستان کی صورتحال، دہشت گردی کے خطرات اور بیوروکریٹک رکاوٹیں، تعاون کی رفتار کو سست کر سکتے ہیں، لیکن SCO اور CPEC جیسے پلیٹ فارمز ان سے نمٹنے کے لیے مضبوط فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔

ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو خطے کی بدلتی جغرافیائی سیاسی صورتحال پاکستان اور روس کو قریب لا رہی ہیں۔ امریکہ اور چین کی رقابت، افغانستان کے حالات اور بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ روس، جو مغربی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، ایشیا میں نئے شراکت داروں کی تلاش میں ہے اور پاکستان اس تناظر میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس شراکت داری کی بنیاد اگرچہ ابھی محدود تجارت پر قائم ہے لیکن بارٹر ٹریڈ اور توانائی کے منصوبے اسے وسعت دے سکتے ہیں۔ روس کی تکنیکی مہارت اور پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن باہمی فائدے کی بنیاد ہے، جبکہ وسط ایشیائی منڈیوں تک رسائی کے لیے پاکستان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ طلبہ اورثقافتی تقریبات و وفود کے تبادلوں اور تعلیمی معاہدوں (جیسے نیوٹیک اور کامسیٹس کے MoUs) سے عوامی سطح پر تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، جو طویل مدتی شراکت داری کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

چنانچہ پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتی قربت خطے کے نئے دور کا عکاس ہے۔ اگرچہ ایران اسرائیل تنازعہ، امریکی مفادات اور بھارت کی پراکسی سرگرمیاں چیلنجز ہیں لیکن مشترکہ مفادات اور بدلتی جغرافیائی سیاسی صورتحال اس شراکت داری کو مضبوط کر رہی ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعاون اور SCO جیسے پلیٹ فارمز اسے مزید گہرا کر رہے ہیں۔

مناسب پالیسی سازی اور معاہدوں پر عمل درآمد کے عزم کے ساتھ پاکستان اور روس نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں بلکہ خطے میں امن، استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے معمار بن سکتے ہیں۔ یہ شراکت داری محض ایک امکان نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خطے کے مستقبل کو روشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جہاں ایک دوسرے کے تعاون سے تنازعات ختم ہوں گےاور مشترکہ ترقی سب کا مقدر بنے گی۔

ماسکو سے گوادر تک ابھرتی ہوئی یہ نئی راہیں نہ صرف اقتصادی ترقی کا نیا نقشہ کھینچ رہی ہیں بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی ازسرِنو متعین کر رہی ہیں۔ روس کے لیے پاکستان ایک بحری راستے کی شکل میں وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا دروازہ بن رہا ہے جبکہ پاکستان روس کی توانائی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری سے اپنے معاشی ڈھانچے کو مستحکم کر سکتا ہے۔ بارٹر ٹریڈ سے لے کر اسٹریٹجک پائپ لائنز تک، دونوں ممالک ایسی بنیاد رکھ رہے ہیں جو آنے والے عشروں میں خطے کے سیاسی، اقتصادی اور سفارتی منظرنامے کو بدل سکتے ہیں۔ اگر یہ شراکت داری درست سمت میں مستحکم رہی تو گوادر کا ساحل اور ماسکو کی فضائیں ایک دوسرے کی ہم آواز بن سکتی ہیں، جہاں نئی راہیں صرف سفر کی نہیں بلکہ باہمی اعتماد، ترقی اور خودمختاری کی ضمانت ہوں گی۔

Shares: