گالی کوئی کلچر نہیں .تحریر: ملک ضماد 

0
52

اسلام سمیت دنیا کے تمام مذاہب میں اخلاقیات پر بہت زور دیا گیا ہے سب سے زیادہ اسلام میں اخلاقیات کا درس دیا گیا ہے

خود ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ساری زندگی لوگوں کو اخلاقیات کا درس دیا اور خود اس پر پہلے عمل کیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفار گالیاں دیتے، مختلف القابات سے بلاتے، جادوگر اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے لیکن کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس کا جواب نہیں دیا بلکہ ان کے لئے ہدایت کی دعا کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی وجہ سے وہ لوگ جو گالیاں دیتے تھے وہ مسلمان ہوئے پھر خود وہ لوگ داعی بنے پھر وہ خود اخلاقیات کا درس دیتے دیتے پوری دنیا میں پھل گئے

طائف کی گلیوں میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت و تبلغ شروع کی تو طائف کے لوگوں نے نبی اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کو طائف سے باہر نکال دیا اور ان کے پیچھے نوجون لڑکوں کو لگا دیا جو ان کو پتھر مارتے رہے پتھر لگنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک سے اتنا خون بہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے مبارک خون سے بھر گئے

طائف سے باہر نکل کر جب کسی جگہ آرام کرنے بیٹھے تو جبرائیل علیہ السلام آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی کہ میں طائف والوں کو تباہ کر دوں تو نبی کریم ص نے کہا نہیں اللہ پاک ان طائف والوں کی آنے والی نسلوں سے دین کا کام لیں گے

پھر دنیا نے دیکھا طائف سے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نکلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گالی دینے والے کو بھی دعا دیتے تھے پتھر مارنے والے کو بھی دعا دیتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو بھی درس صبر و تحمل سے رہنا کوئی برا کہے درگزر کروکوئی گالی دے برداشت کروایک حدیث شریف کا مفہوم ہے

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا “گناہ کبیرہ میں یہ بھی ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے”۔ صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی، “یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟” آپﷺ نے فرمایا کہ “ہاں ! وہ اس طرح کہ یہ کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ جواب میں  اس کے باپ کو گالی دے ، یہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ جواب میں اسکی ماں کو گالی دے”

( بخاری ، مسلم )

آج کل ہمارے معاشرے میں گالی کو فیشن سمجھا جا رہا ہے ایک دوسرے کو اگر مخاطب بھی کرنا ہے تو گالی دے کر کیا جا رہا ہے حالانکہ اسلام میں کسی نام بگاڑنے یا گالی دینے والے کے لیے سخت وعید بتائی گئی ہے ہماری عام عوام ہو یا ہمارے ارباب اختیار ہواسمبلی میں بیٹھے ممبران ہوں یا اسمبلی سے باہر سیاسی لوگ دفاتر میں بیٹھے افسران ہوں یا سڑکوں پے کام کرنے والے جس کو بھی دیکھو آج کل اس کے زبان پے گالی عام ہو چکی ہے

پھر اکثر لوگ گالیاں بھی ماں بہن کی دیتے ہیں جن کو پتہ نہیں ہوتا ان کے بیٹے، بھائی باہر کیا گل کھلا رہے ہیں جو ان ہو اتنے اچھے طریقے سے یاد کیا جا رہا ہے سب سے پہلے ہم انسان ہیں پھر مسلمان ہیں ہمیں بطور معاشرہ یہ سوچنا ہو گا کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے ہم کسی کو گالی دیں اور وہ ہمیں گالی دے گالی دینا اخلاقی، مذہبی، معاشرتی، قانونی، کسی بھی طور پے جائز یا قابل برداشت نہیں اکثر دیکھا گیا ہے دوست ایک دوسرے کو مذاق میں گالیاں دیتے دیتے لڑ پڑتے ہیں اور بات قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے پھر وہ دوست جو ایک دوسرے کے بغیر سانس نا لیتے تھے ان کی چھوٹی سی غلطی سے بات خاندانی دشمنی تک پہنچ جاتی ہے ،

آئیں مل کر اپنے آپ سے شروع کریں اور پھر پورے معاشرے کو اس کی ترغیب دیں گالی نہیں پیار دو پیار محبت کا کلچر عام کرو پیار دو پیار لو کو اپناو

Leave a reply