علی امین گنڈاپور کی 30 گھنٹوں کی گمشدگی پر لب کشائی

ali amin

اسلام آباد میں پانچ اکتوبر کے احتجاج سے غائب ہونے اور 30 گھنٹوں تک منظر عام سے غائب رہنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے تفصیلات بیان کر دیں۔ منگل کو صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس دوران پیش آنے والے واقعات اور اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا۔علی امین گنڈاپور نے بتایا کہ وہ اسلام آباد کے احتجاج کے بعد خیبرپختونخوا ہاؤس چلے گئے تھے تاکہ آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت کریں، تاہم اس دوران پولیس نے خیبرپختونخوا ہاؤس پر چھاپہ مارا اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ "میں نے کے پی ہاؤس میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ صورتحال کا جائزہ لے سکوں، مگر اچانک آئی جی نے کے پی ہاؤس پر دھاوا بولا، اور پولیس نے آنسو گیس اور فائرنگ شروع کر دی۔
گنڈاپور نے مزید کہا کہ "میرے ایک ساتھی نے مجھے وہاں سے نکالا اور کے پی ہاؤس کے سامنے واقع ایک پکٹ میں پہنچا دیا۔ میں چار گھنٹے وہاں پکٹ میں بیٹھا رہا، میرے ساتھ میرا محافظ سمیع بھی تھا۔ اس دوران میرے گارڈ نے اطلاع دی کہ تمام گاڑیوں کے ٹائر پنکچر کر دیے گئے ہیں۔انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ "کچھ گھنٹوں بعد، گاڑی کا انتظام کیا گیا اور مونال کی طرف بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ شدید بارش ہو رہی تھی، اور پولیس کی گاڑیاں ہر جگہ موجود تھیں۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پکٹ سے چھلانگ لگائی اور پیدل ہی چلنے لگا تاکہ پولیس کی نظر میں نہ آسکوں۔ نہ میرے پاس موبائل تھا، نہ ایک روپیہ، بس اللہ کی مدد پر بھروسہ تھا۔”

وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ "میں نے ایک گاڑی کو روکنے کے لیے اس پر پتھر مارا، اور خوش قسمتی سے وہ وہی گاڑی تھی جس کا انتظام کیا گیا تھا۔ گاڑی کو میرا سی ایم ہاؤس کا ڈرائیور افتخار چلا رہا تھا، جبکہ میرے گارڈ عارف خٹک اور طارق موٹر سائیکل پر تھے۔ طارق گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھ گیا اور ہم پشاور کی طرف روانہ ہو گئے۔انہوں نے گاڑی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ "گاڑی کا نمبر ‘اے اے 4263’ تھا، جو کے پی ہاؤس اسلام آباد کی سرکاری گاڑی تھی، اور موٹر وے کے ایم ٹیگ کی رسید بھی موجود ہے۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ موٹر وے سے اترنے کے بعد انہوں نے ایک ضلع کے ڈی پی او کے گھر پناہ لینے کی کوشش کی، لیکن ڈی پی او کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ "میں نے ڈی پی او سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ مجھے پشاور سی ایم ہاؤس جانا ہے، مگر اسے کہا کہ کسی کو اس کا علم نہ ہو۔ تاہم، اس نے کہا کہ وہ اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔”
گنڈاپور نے مزید بتایا کہ "صبح جب میں نے دوبارہ اس ڈی پی او کو فون کیا تو اس نے کہا کہ میرے چھوٹے بچے ہیں، میرا نام مت لینا، ورنہ میری نوکری چلی جائے گی۔ یہ سن کر میں حیران ہوں کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ جس کے وہ ماتحت ہے، وہ اس کے گھر آیا تو وہ ڈر رہا تھا کہ اس کی نوکری چلی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کارکنوں کی گرفتاریوں پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "جتنے کارکن گرفتار ہوئے ہیں، سب کو رہا کرایا جائے گا۔ یہ گرتی ہوئی دیوار ہے، جسے اگلا دھکا ہم دیں گے۔ عمران خان کے حکم کا انتظار ہے، اور اگر حکم ملا تو شہباز شریف کے بیڈروم تک پہنچ جائیں گے۔ آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا نہ گیا تو ہم دوبارہ دھاوا بولیں گے کیونکہ اس نے ہمارے صوبے پر حملہ کیا ہے۔”انہوں نے کارکنوں کو متحرک رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے نعرہ لگایا "سادا حق ایتھے رکھ” اور کہا کہ "تیار رہو، ہم دوبارہ آرہے ہیں۔”

Comments are closed.