گندم بحران پردی گئی سفارشات پر پیش رفت کے حوالے سے جواب طلب

0
43

گندم بحران پردی گئی سفارشات پر پیش رفت کے حوالے سے جواب طلب

اسلام آباد(محمداویس)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی میں سیکرٹری نے انکشاف کیا کہ چینی کا بحران سندھ میں شوگر ایسوسی ایشن کی طرف سے چلتی ملیں بند کرنے کی وجہ سے ہوا ہے ،صوبہ سندھ کہنے کے باوجود 90 روپے کلو والی درآمدی چینی نہیں لے رہاہے ،گندم کی کوئی کمی نہیں اگلے سال جون تک ذخائر موجود ہ ہیں۔کمیٹی نے کھاد کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا، زیتون کے ٹینڈر نوٹس میں مبینہ بے ضابطگیوں پر پی اے آر سی سے رپورٹ طلب کرلی۔گندم کی یکساں امدادی قیمت مقرر کرنے کے لیے کیا نظام بنایا جارہاہے۔کمیٹی نے گندم بحران پر دیئے گئے 18سفارشات پر پیش رفت کے حوالے سے جواب طلب کرلیا۔وزیر فخر اما م نے کہاکہ ہمارا بیج عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں جس کی وجہ سے گندم کی پیداور میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ کپاس کا جدید بیج ہم نے 22 سالوں میں نہیں خریدی ہے

۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی کااجلا س چیرمین سید مظفر حسین شاہ کی سربراہی میں ہوااجلاس میں وزیرنیشنل فوڈ سکیورٹی فخرامام ،سیکرٹری ،چیرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام محمد علی ودیگر حکام نے شرکت کی ۔وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی فخرامام نے کہاکہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس 8لاکھ ٹن گندم موجودہے۔ ہم گندم کی مزید پیداور بڑھانا چاہتے ہیں ہم نے 25سو روپے من کے حساب سے گندم درآمد کی ہے۔کھاد پر ہم نے کام نہیں کیا جس کی وجہ سے کھاد پر عالمی مارکیٹ کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔گندم کی پیداور بڑھانے کے لیے فاسفیٹ کھاد بہت ضروری ہے۔ہم کاشت کاروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور وقت پر کھاد دینا چاہتے ہیں۔چیرمین کمیٹی سید مظفر حسین شاہ نے کہاکہ پورے ملک میں گندم کی ایک امدادی قیمت کے لیے کیا نظام بنایا جارہاہے۔عام کاشت کار 7ہزار میں کھاد کی بوری نہیں خرید سکتاہے۔70سال میں ہم کھاد میں خودمختار نہیں ہوسکے، شوگر کرئسیز، گندم کے مسائل پر کیا جارہاہے۔جس طرح کھاد کی قیمتیں بڑرہی ہیں پتہ نہیں کیا کپاس کی کاشت ہوسکے گی کہ نہیں؟ فخر امام نے کہاکہ یوریا کھادمیں ہم خود مختار ہوگئے ہیں۔سینیٹرثانیہ نشتر نے کہاکہ گندم کی امدادی قیمت پر کابینہ میں بحث ہوئی ہے۔ فاسفیٹ کھاد اور بیج پر درآمدات پر مکمل انحصارہے یہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن سکتا ہے۔

چیرمین نے کہاکہ امدادی قیمت ایک صوبے میں ایک دوسرے میں دوسری ہے پورے پاکستان میں ایک قیمت ہونی چاہیے۔ ہمیں گندم میں خود انحصار ہونا چاہیے۔ فخرامام نے کہاکہ بیج کے حوالے سے ہم عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ گندم کی پیداور میں کوئی اضافہ نہیں ہواہے۔کپاس کی جدید بیج ہم نے 22سالوں میں نہیں خریدی ہے جس سے ہماری پیداور متاثر ہوئی ہے۔باقی سب ممالک نے خرید لی جس کی وجہ سے ان کی پیداور اچھی ہوگئی۔سیکرٹری زراعت نے بتایا کہ کھاد کی کمی پر حکومت نے فرٹیلائزر کمپنیوںکوگیس کی سپلائی دی جس کی وجہ سے یوریا میں خود مختار ہوگئے ہیں۔ فاسفیٹ کھاد پر بات ہوئی ہے۔ کھاد پر پالیسی بنارہے ہیں۔ سینیٹرجام مہتاب نے شکوہ کیاکہ کمیٹی میں وزیر معاون خصوصی نے آپس میں بات کی ہے ہمیں بات ہی کرنے دی گئی۔ گندم 20کلو 13سو میں مل رہاہے۔ڈی اے پی 7800روپے بوری ہوگئی ہے۔ دو سال میں سندھ میں پانی کی قلت بھی ہے پانی کی کمی ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کیا وجہ ہے۔کپاس کی پیداور بھی کم ہوگئی ہے۔بریفنگ حکام بہت اچھی دیتے ہیں۔ثانیہ نشتر نے کہاکہ فوڈ سیکورٹی نیشنل سیکورٹی کامسئلہ ہے۔ سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ بریفنگ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاںکسی چیز کی سیکورٹی نہیں ہے جبکہ کمیٹی کا نام فوڈ سیکورٹی ہے۔بمپر کاشت ہوئی تو گندم کیوں درآمد کی گئی۔ یوریا پر بتایا گیا کہ ہمارا کنڑول اس پر نہیں ہے بتایا جائے کہ ہمارا کنڑول کس پر ہے۔شوگر ملز کو کون کنڑول کرے گا کنڑول کس چیز پر ہے۔ پاکستان سے گندم افغانستان سمگل ہوجاتی ہے اس کو کیوں جانے دیتے ہیں اس کے بعد مہنگی گندم خریدتے ہیں۔ جن افسران نے تباہی مچائی ہے وہ آج بھی وہاں لگے ہیں ان کو ہٹایا جائے۔کمیٹی کی مہینے میں دو اجلاس ہونے چاہیے۔سینیٹرکامران مرتضیٰ نے کہاکہ حکومت کو تین سال سے زیادہ ہوگیا ہے اب بتائیں انہوں نے کیا کیا ہے۔گندم پہلے اپنے لوگوں کو کھلائیں اس کے بعد افغانستان بھیج دیں۔شوگر میں بھی سارے سیاسی رشتہ دار ہیں۔ فوڈ سیکورٹی پر کچھ نہیں ہو رہا ہے۔اگر کچھ نہیں کیا تو عوام ہمیں ماریں گے۔محمد اکرم نے کہاکہ گندم کی مس منیجمنٹ ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیںاس سے اشرافیہ کو فائدہ ہے۔

سیکرٹری زراعت نے کہاکہ ڈی اے پی صرف ایک کمپنی بناتی ہے گیس کی فرٹیلائزر کی سپلائی دی جس کی وجہ سے یوریا درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔باقی کھاد درآمد کرتے ہیں۔کھاد پر ایک فصل کے لیے 15ارب کی سبسڈی دی ہے گندم کی 1950روپے فی من آمدادی قیمت مقرر کردی گئی ہے۔چینی کامسئلہ اس لیے ہواہے کہ 15اکتوبر سے سندھ کی شوگر ملیں چلنی ہوتی ہیں ان کو بند کردیا گیا ان کی شوگر مل ایسوسی ایشن نے بند کیا ہے۔اب ہم نے دوبارہ مذاکرات کرکے5ملیں سندھ کی چلادی ہیں۔15نومبر سے پنجاب کی ملیں چل پڑیں گئیں۔سندھ کو بھی کہاہے کہ 90روپے کلو والی چینی لے لیں مگر ابھی تک وہ نہیں لے رہے ہیں۔گندم کی برآمد پر پابندی ہے سمگل ہورہی ہے 19لاکھ 10ہزار ٹن گندم درآمد ہوئی ہے۔ اگلے سال 10جون تک گندم کاذخیرہ موجود ہے۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ پچھلے سال گندم کابحران آیا تو پنجاب نے برآمد کی اجازت لی جب اجازت دے دی گئی توگندم کا بحران پیدا ہوگیااوربحران کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گندم افغانستان سمگل ہورہی تھی۔بمپر کاشت ہوئی ہے تو درآمد کیوں کررہے ہیں۔گندم کی پیداوار پر خرچ زیادہ آتا ہے تو لوگ کیوں کاشت کریں۔کامران مرتضیٰ نے کہاکہ گندم کے اسمگلنگ میں پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ اور سیکورٹی سے منسلک لوگ ملوث ہیں مگر ان کے نام ہم لے نہیں سکتے ہیں۔

ثانیہ نشتر نے کہاکہ ڈیٹا اور سرویلنس کا نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بھی مسائل ہیں. وزارت کو اپنی استعدادکار کو بڑھانا چاہیے۔ کمیٹی نے کھاد کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔جس سے پیداور متاثر ہوگی وزارت اس کو حک کرنے کے لیے کیا کررہی ہے زیتون کے ٹینڈر نوٹس میں مبینہ بے ضابطگیوں پر رپورٹ طلب کرلی۔اس کے حوالے سے کمیٹی بناکر انکوائری کی جائے اور رپورٹ کمیٹی کودی جائے۔کمیٹی کوبتایاجائے کہ یکساں امدادی قیمت مقرر کرنے کے لیے کیا نظام بنایا جارہاہے۔کمیٹی نے اریڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ عمرکوٹ کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔کمیٹی نے گندم بحران پر دیئے گئے 18سفارشات پر پیش رفت کے حوالے سے جواب طلب کرلیا۔

Leave a reply