نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا، اس مصرع کو اگر دوبارہ ترتیب دیا جائے تو آج کا شاعر، بلکہ میں خود اس کو یوں ترتیب دیتا
نہ گنواؤ اپنی محبت، دل خستہ حال بس بیچ دیا،
آج کل ہر جوان لڑکا لڑکی جو میری جیسی جسامت اور قد رکھتے ہیں وہ اس مرض کا شکار ہیں اور وجہ ہزاروں ہوں، اک وجہ ہم خود لکھاری ہیں جو ان کو اپنی ٹوٹی پھوٹی کہانیاں سناتے ہیں.
خیر یہ مسئلہ ایسا ہے جس میں ہر بندہ اپنا خود کا فلسفہ رکھتا ہے –

ملک کے حالات بڑے خراب ہیں، یہ بات مجھے کسی ٹی وی، اخبار یا سیاسی بندے سے نہیں ملی بلکہ محلے کی اک چھوٹی بچی جو مجھ سے کھانے کے پیسے مانگتی تھی اس سے پتا چلی کیونکہ اس نے اب مانگنا چھوڑ دیا اور گھر سے نکلنا بند کر دیا. وجہ پوچھی تو بتایا ملک میں چوروں کا ٹولہ آیا ہوا جو ہر گھر تک رسائی رکھتا ہے –
میں خود لکھنا چھوڑا ہوا کیونکہ مایوسی گناہ ہے اور میں جب لکھتا ہوں منحوس ہی لکھتا ہوں. دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم ابھی stellar Nursery پر ہیں
جہاں ابھی ہماری ترقی کا سیارہ بن رہا ہے، چلو اچھے کی امید تو ہے!
اک شہری ہونے کے ناطے ہمیں ایسا کیا کرنا جس سے ملک ترقی کرے؟ مجھ سے کسی نے سوال کیا جواباً میرے منہ سے نکل گیا "خودکشی
جس پر وہ غصے میں آگے اور پھر مجھ سے کوئی سوال نہ کیا گیا –

باقاعدہ اردو ادب سے محبت رکھنے کی وجہ سے مجھے بہت مواقع دیے گے – چار سالوں میں تیسری بار سٹیج پر آنے کا موقع ملا اور یوں عمر کے حساب سے چھ سات اور مواقع مل سکتے..
پاکستان میں Adveritisment کا بول بالا بھی عام لوگ تک پہنچ چکا – اب اس بات کا اندازہ تب ہوا جب میں اک دور کھڑے رکشہ دیکھا، ڈرائیور بار بار کہہ رہ کے اک سواری اک سواری میں ڈورتا چلا گیا جب وہاں بیٹھا تو ساتھ والا اٹھ کھڑا ہوا اور ڈرائیور دوبارہ صدا دینے لگا اک سواری اک سواری –
وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں فیض احمد فیض کے غزل کے دو اشعار پیش کروں گا

نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا

مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو

جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا

Shares: