گاڑیوں کی بڑھتی قیمتوں، معیار، گاڑیوں کی تیاری پر پیش رفت نہ ہونے پر قائمہ کمیٹی کا تشویش کا اظہار

0
57

ملک میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، معیار، گاڑیوں کی تیاری پر پیش رفت نہ ہونے پر قائمہ کمیٹی کا تشویش کا اظہار

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدا وار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر احمد خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے 4فروری 2020کو سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال برائے ملک میں اسمبل کی جانے والی کاروں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کے 4فروری 2020کو سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال برائے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی تفصیلات، سینیٹر کلثوم پروین کے 13جنوری 2020کو پیش کئے گئے موشن برائے کاروں اور دیگر گاڑیوں کی سیل میں کمی، سینیٹر سراج الحق کے 5جون 2020کو سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال برائے اسٹیل مل ملازمین کی تفصیلات، انصاف لیبر یونین پاکستان اسٹیل مل کو 27 جنوری 2020کو لکھے گئے خط پر مزید بحث کے علاوہ سینیٹر نعمان وزیر خٹک کے 26اگست 2020کو اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پاکستان میں اسمبل کئے جانے والی کاروں کے معیار کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر احمد خان نے کہا کہ آٹو موبائل انڈسٹری انتہائی اہمیت کی حامل ہے ملک میں آٹو موبائل انڈسٹری کو فروغ دے کر نہ صرف آمدن حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ قوم کو بھی موثر جدید ٹیکنالوجی کی حامل آٹو موبائل فراہم کی جا سکتی ہے جس سے عوام کو ریلیف میسر ہو سکتاہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ملک میں عرصہ دراز سے بے شمار کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی مگر جدید پلانٹ نہیں لگائے گئے جس سے ملک وقو م کو فائدہ ہو سکے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے 4فروری 2020کو سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال برائے ملک میں اسمبل کی جانے والی کاروں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ کمیٹی کو جو ورکنگ پیپر فراہم کئے گئے ہیں اُس سے مطمئین نہیں ہوں انہوں نے کہا کہ کوئی اتھارٹی نہیں ہے کہ جو پرائس کو کنٹرول کر سکے اور ایک ایکٹ کے تحت کام کو چلایا جا رہا ہے ملک میں کاروں اور دیگر گاڑیوں کی قیمتیں اپنی مرضی سے بڑھائی جا رہی ہیں موثر میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے غریب آدمی گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرکمپنیاں گاڑیاں بنانے کے لیے خام مال درآمد کرتے ہیں تو کیا انہوں نے آج تک مقامی گاڑیاں بنانے کیلئے کوئی ترقی نہیں کی اہم چیزیں ابھی تک ایمپورٹ کی جاتی ہیں۔ ملک میں 40سالوں سے یہ کمپنیاں ٹیکنالوجی کو فروغ نہیں دے سکیں۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کی 2019کی رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل کمپنیوں نے چھ ہزار ارب روپے سے زائد صارفین سے وصول کئے ہیں۔ چیئر مین کمیٹی سینیٹر احمد خان نے کہا کہ ملک میں کتنے پرانے پلانٹ لگے ہوئے ہیں مگر گاڑیوں کے ا نجن، ٹرانسمیشن اور دیگر اہم چیزیں ایمپورٹ کی جاتی ہیں اور مقامی سطح پر عام پرُزہ جات بنائے جاتے ہیں جو انتہائی افسوس کی بات ہے دنیا کہا سے کہا پہنچ گئی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے کا سارا ملبہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور حکومتی ٹیکسز پر ڈالا جا رہا ہے۔ دنیا ای الیکٹرک پر جا چکی، ہم اب تک ہائبریڈ گاڑیوں کا پلانٹ نہیں کگا سکے۔جاپان سے آنے والی گاڑیوں پر ڈیوٹی اتنی ہے کہ اس کو خریدا نہیں جا سکتا۔آٹو انڈسٹریز میں 2 سال میں کیا بہتری لائی گئی۔

کمیٹی کو بتایا جائے کہ جو کراچی پورٹ پر کسٹم ڈیوٹی لی جاتی ہے اس سے ملک کو کتنا فائدہ ہوتا ہے باہر سے آٹو گاڑیاں آنا بند ہو گئی ہیں۔پاکستان میں جو آٹو موبائلز پلانٹس لگنے تھے ان کا کیا بنا؟ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے ملک میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، معیار اور ملک میں گاڑیوں کی تیاری پر پیش رفت نہ ہونے پر سخت برہمی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار اور ملک کی بڑی مینو فیکچرنگ کمپنیوں کو طلب کر کے تفصیلات بشمول گاڑیوں کے ایمپورٹ کر دہ پارٹس، قیمتیں، معیار اور گاڑیوں میں دی جانے والی سہولتیں، کمپنیوں کے منافع، باہر سے آنے والی گاڑیوں کی ڈیوٹی وغیرہ کی تفصیلات بھی طلب کر لیں

۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی اور ڈاکٹر سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ پاکستان میں 10 لاکھ کی گاڑی 40 لاکھ کی کیوں ملتی ہے؟ صارفین کو لوٹا گیا اور ضرورت سے زیادہ پیسے لئے جاتے ہیں۔ ٹویٹا کمپنی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں گاڑیوں کے انجن اور ٹرانسمیشن کو ایمپورٹ کر کے اسمبل کیا جاتا ہے گاڑیوں کی قیمتوں پر 40فیصد ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے۔ جس پر سینیٹر بہرا مند خان تنگی نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں بنگلادیش اور انڈیا کے مقابلے میں ڈبل ہے۔

سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ ٹویٹا گاڑیوں کی لوکل مینوفیکچرنگ پر پابندی عائد کی جائے جن کا معیار بھی بہتر نہیں اور قیمتیں بھی زیادہ ہیں۔گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں کھائیں، پرافٹ لیں پر عوام کو نہ لوٹیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بننے والی گاڑیاں دو چار سال میں فارغ ہو جاتی ہیں۔ملک میں گاڑیوں پر کوئی پرائس اور کوالٹی کنٹرول نہیں۔ کمپنیاں عوام سے گاڑیوں کے لیے پیسے ڈالروں کے حساب سے لیتے ہیں تو کوالٹی بھی دیں۔ کمیٹی اجلاس میں سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ، سراج الحق اور نعمان وزیر خٹک کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت کی وجہ سے اُن کے ایجنڈوں کو آئندہ اجلاس تک کیلئے موخر کر دیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں دو اور تین ویلر گاڑیوں کی پالیسی بن گئی ہے چار ویلر کی پالیسی بن رہی ہے جس پر کمیٹی نے پالیسی مکمل ہونے تک معاملہ موخر کر دیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دنیا بھر میں لوگ برقی گاڑیوں کی طرف جا رہے ہیں ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے جب تک ملک میں انسٹالیشن پلانٹ نہیں لگے گے عوام کو فائدہ نہیں ہو گا ملک میں برقی گاڑیوں کیلئے مقامی ٹیکنالوجی متعارف کروانی چاہئے اور کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس پر تفصیلی بریف کیا جائے۔

پاکستان اسٹیل مل حکام نے خط میں جو تفصیلات طلب کی تھیں اُن بارے تفصیلی آگاہ کیا کمیٹی کو بتایا گیا کہ گلشن حدید فیس تھری میں غیر قانونی قابضین کو ہٹایا جا رہا ہے۔ گلشن حدید فیس فور کے حوالے سے بتایا گیا کہ جب تک ادارے کی نجکاری کا فیصلہ نہیں ہو جاتا این او سی نہیں مل سکتا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ انصاف ورکرز یونین و دیگر 2011کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا مطالبہ کرتے ہیں جس پر عمل نہیں ہو سکتا اُس وقت کی مرعات اب نہیں مل سکتی۔تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے پر بھی عمل نہیں ہو سکتا اور سابقہ واجبات کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اسٹیل مل ملازمین کے گھروں کا چولہا تنخواہوں پر جلتا ہے بے شمارے بچے اور بچیوں کی شادیاں تک نہیں ہو رہی لوگوں کو بہت مالی مسائل کا سامنا ہے کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ ملازمین کو جلد سے جلد تنخواہ ادا کی جائے اور واجبات بھی ادا کئے جائیں ہمیں مسئلے کو انسانیت کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز بہر مند خان تنگی،اورنگزیب خان، ڈاکٹر آصف کرمانی، کشو بائی، محمد علی خان سیف، ستارہ ایاز کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار ڈاکٹر حامد عتیق سرور، سی ای او پاکستان اسٹیل مل شجاع حسن، سی ای او پی آئی ڈی سی اور ٹیوٹا کمپنی کے نمائندہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی

Leave a reply