اڈانی گروپ کے چیئرمین،گوتم اڈانی نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ اڈانی گروپ امریکہ کے توانائی کے شعبے میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سرمایہ کاری کا مقصد امریکی توانائی کی سلامتی اور مضبوط انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو فروغ دینا ہے، جس سے تقریباً 15,000 نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔

اڈانی نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دی اور کہا کہ وہ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے خوش ہیں اور اس بات پر خوشی محسوس کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی شراکت داری میں مزید گہرائی آ رہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ اڈانی گروپ کی شراکت داری بھارتی معیشت اور عالمی سطح پر ترقی کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہوگی۔

گوتم اڈانی کا کہنا تھا کہ یہ سرمایہ کاری نہ صرف امریکہ کی توانائی کی سلامتی کو مضبوط کرے گی بلکہ اس سے امریکی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔ اڈانی گروپ توانائی کے شعبے میں نئی ٹیکنالوجیز اور انفراسٹرکچر پر کام کرے گا، جس سے امریکہ میں توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے جدید حل فراہم کیے جائیں گے۔اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں تقریباً 15,000 نئی ملازمتوں کے پیدا ہونے کی توقع ہے، جو کہ امریکی ورک فورس کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے۔ اڈانی گروپ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے نہ صرف توانائی کے شعبے میں بلکہ امریکی معیشت کے دیگر شعبوں میں بھی مثبت اثرات مرتب کریں گے۔

گوتم اڈانی نے اپنے بیان میں بھارت اور امریکہ کے تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔ بھارت کی معیشت میں تیزی سے ترقی اور امریکہ کے ساتھ تجارتی شراکت داری کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم ہو سکتے ہیں۔اس اعلان کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اڈانی گروپ کی سرمایہ کاری نہ صرف بھارت کے لئے بلکہ عالمی سطح پر توانائی کے شعبے میں نئی تبدیلیوں کا باعث بنے گی۔

گوتم اڈانی کا یہ بیان بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں ایک اور سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں بھارت کی تیز رفتار اقتصادی ترقی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، وہیں اڈانی گروپ کی جانب سے کی جانے والی یہ بڑی سرمایہ کاری دونوں ممالک کی اقتصادی شراکت داری میں مزید گہرائی لانے کا سبب بنے گی۔ اس طرح کی سرمایہ کاری سے نہ صرف امریکہ میں نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ دونوں ممالک کی توانائی کی پائیداری میں بھی بہتری آئے گی۔

Shares: