جنیٹک ٹیسٹنگ (Genetic testing) — خطیب احمد

0
61

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی 8 ارب آبادی میں سے 15 فیصد یعنی 1 ارب لوگ کسی نہ کسی سپیشل کنڈیشن یا معذوری کا شکار ہیں۔ ان میں 20 کروڑ یعنی پاکستان کی کل آبادی جتنے افراد شدید قسم کی ناقابل علاج ڈس ایبیلٹیز کے ساتھ ہیں۔ ایک ارب میں سے دنیا بھر میں 49 کروڑ سماعت سے محروم و متاثرہ سماعت ہیں۔ 2018 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی 10 ارب سے زیادہ ہوگی۔ جس میں 1.5 ارب سماعت سے متاثرہ و محروم افراد ہونگے جس کی وجہ لاؤڈ اسپیکرز، ہینڈز فری، بلیو ٹوتھ، ائیر پاڈز ایم پی تھری ڈیوائسز وغیرہ کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ باقی معذوریوں کی ریشو آپ خود نکال سکتے ہیں۔

جہاں دنیا بھر میں 1 ارب لوگ سپیشل ہیں۔ وہیں ان میں سے سپر پاورز کے حامل سپیشل افراد اور دیگر انسان اپنی اگلی پیڑھی کو معذوریوں سے بچاؤ کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ کسی طرح معذوری کو ہونے سے پہلے ہی روکا جائے۔۔کیونکہ بے شمار بیماریاں اور معذوریاں آج بھی ناقابل علاج ہیں۔

اس روک تھام میں کلیدی کردار انسانی جینیاتی علوم کا ہے۔ جینیاتی ماہرین جنیٹک ٹیسٹنگ کی فیلڈ میں نت نئے تجربات و مشاہدات کرکے انسانی جسم کو وائرسز، دائمی امراض، انفیکشنز، جان لیوا بیماریوں، معذوریوں سے بائی ڈیفالٹ ہی محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔سائنس فکشن فلموں میں ہم اپنے بچپن سے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ جو اب کسی حد تک حقیقت میں بھی ہونے لگا ہے۔ گو اب بھی اس میں کئی افسانے ہیں مگر میں کوئی افسانہ نہیں سنانے والا۔ کچھ عملی باتیں ڈسکس کروں گا۔

جنیٹک ٹیسٹنگ پر جانے سے پہلے کچھ بنیادی باتیں سمجھ لیں۔ ماں کے تخم اور والد کے نطفے سے حمل ٹھہرنے پر بننے والا زائگوٹ یک خلوی جاندار ہوتا ہے۔ جسے بنیادی خلیہ یا سٹیم سیل کہتے ہیں۔

اس سیل میں ایک نیوکلئیس ہوتا ہے۔ نیوکلئیس کو خوردوبین سے دیکھیں تو اس میں ننھی منھی سی چھوٹی چھوٹی دھاگے نما چیزیں حرکت کرتی نظر آتی ہیں۔ جنہیں ہم کروموسوم کہتے ہیں۔ یہ 23 جوڑے یعنی ایک انسانی سیل میں 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ مختلف جانداروں جانوروں و پودوں میں ان کروموسومز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً بلی میں 38 اور کتے میں 78 کروموسوم ہوتے ہیں۔ ایک کیکر کے درخت میں 12 اور ایک کبوتر میں 80 کروموسوم ہوتے ہیں۔ ایک ہاتھی میں 56 کروموسوم ہوتے ہیں۔

جب کروموسوم کو خوردوبین میں بڑا کرکے دیکھیں تو اس میں گول گول گھومتی ہوئی سیڑھی نما چیزیں دکھائی دیں گی۔ جنکو ہم DNA 🧬 کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک ڈی این کے چھوٹے سے ٹکڑے کو ہم جین Gene کہتے ہیں۔

انسانی جینوم یعنی انسانی کوڈ میں 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ 20 ہزار جین ہوتے ہیں۔۔اور ایک انسانی جینوم میں 3 ارب معلومات کے مقام ہوتے ہیں۔

کروموسوم جین جینوم ڈی این اے یہ سب مل کر انسانی حصوصیات وراثتی معلومات کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

جینوم ایک ریسپی بک اور جین ایک ریسپی کی ترکیب ہوتی ہے۔ جنیوم طے کرتا ہے کہ ہمارا سارا سٹرکچر کیسا ہوگا۔ اور جین جسم کے ہر حصے کو بنانے کے لیے ڈی این اے میں محفوظ معلومات پر عمل درآمد کرواتا ہے۔ ہمارے دانت آنکھیں رنگ وزن قد کیسا ہوگا یہ سب جینز کا کام ہے۔ جینز پروٹین پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں اور پروٹین انسانی جسم بناتی ہیں۔ کونسے جین میں کوئی تبدیلی یا تغیر آیا ہے۔ یہ طے کرتا کہ جسم کا کونسا حصہ ٹھیک نہیں بن سکا۔

ہزاروں جینز کے نام ہیں۔ مثلا OCA2 نامی جین میں تغیر آجائے تو جسم میں میلانن پروٹین نہیں بن سکے گی یا کم بنے گی۔ میلانن ہمارے جسم میں کالے رنگ کی مقدار طے کرتی ہے۔ اس جین کی خرابی والے افراد Albinism یعنی سورج مکھی کا شکار ہوتے ہیں۔ میلانن پگمنٹ ہی طے کرتا ہے ہماری اسکن آنکھوں اور بالوں کا رنگ کیا ہوگا۔ وہ ہوگا ہی نہیں تو آنکھیں لائٹ کلر کی بال اور جسم بلکل سفید ہوگا۔ اسکن عام دھوپ سے جل سکتی ہے۔

خیر جنیٹکٹس کی بنیادی معلومات سمجھ آگئی ہیں ناں؟ کہ ہم ایک انسان بنتے کیسے ہیں۔

اب آتے ہیں جنیٹک ٹیسٹنگ کی طرف۔

جنیٹک ٹیسٹنگ میں ہمارے خون تھوک پسینے یا ایک سیل کا سامپل لیکر ڈی این اے کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ کہ ہمارا جسم کیسے فنکشن کر رہا ہے۔ جین ڈی این اے کا ہی ایک ٹکڑا ہے۔ اس ٹیسٹنگ میں معلوم کیا جاتا ہے کہ کونسے جینز میں میوٹیشن ہوئی ہے۔ آیا ہمارے پاس کوئی سویا ہوا کینسر ہیموفیلیا تھیلیسیمیا سسٹک فائبروسس کا جین تو نہیں۔ جو ہمارے بچوں میں جا کر جاگ سکتا ہے۔ ہم ٹھیک ہیں ہمارے بچے ان بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اور اس سے ہمارے اپنے جسم میں کیا تبدیلی آسکتی ہے۔ یعنی کوئی بیماری یا کسی معذوری کا پیشگی اندازہ لگانا۔ یا اگلی پیڑھی کو یہ جین منتقل کرنے کی روک تھام پر ماہرین سے جنیٹک کاونسلنگ لینا۔

بے شک جنیٹک ٹیسٹنگ کسی بھی مسئلے کا سراغ لگا کر اس سے بچاؤ اور علاج میں مددگار ہے۔ مگر ہم اسے سو فیصد درست نہیں کہہ سکتے۔ ڈی این اے اور جینز کے اندر اربوں کھربوں گھتیاں ہیں۔ جو انسانی عقل ابھی لاکھوں سال بعد سلجھا پائے گی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ انسانی جین دیگر جانوروں اور پودوں میں بھی پائے جاتے ہیں؟ اسکا مطلب ہے کہ زندگی کا آغاز کھربوں سال قبل ایک سیل سے ہوا تھا اور اسی سے ساری کائنات وجود میں لائی گئی۔

جنیٹک ٹیسٹنگ میں پروٹین ان کوڈنگ encoding کے پارٹس جنکو ہم Exome کہتے ہیں۔ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ کہ کہاں کوئی تنوع ہے۔ جو ہماری صحت یا ہمارے بچوں کو کسی طرح متاثر کر سکتا ہے۔

جنیٹک ٹیسٹنگ کی سات بڑی اقسام ہیں۔

جنیٹک ٹیسٹنگ دنیا بھر میں جینیاتی بیماریوں کی مختلف لیولز پر کھوج لگانے میں مدد گار ہوتی ہے۔ اگر کسی جینیاتی نقص کا علم ہوجائے تو اسکا علاج یا روک تھام کیسے کرنی ہے اس پر کام کیا جاتا ہے۔

میں نے اسی مضمون کے پہلے حصے میں لکھا کہ جینیاتی ٹیسٹوں کو ہم سات بڑی اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ جینیاتی بیماریاں کیا اور کیسی ہوتی ہیں تفصیل سے پچھلی پوسٹ میں لکھا گیا ہے۔۔ اسکا لنک اسی پوسٹ کے اختتام میں موجود ہے۔

سات طریقہ ہائے ٹیسٹ یہ ہیں۔

1.تشخیصی ٹیسٹ (Diagnostic Testing)

اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے اندر کسی بھی ایسی بیماری یا معذوری یا Disease کی علامات ہیں جو کہ جینیاتی ہیں۔ ان کو ہم عام زبان میں جینیاتی تغیر یعنی mutated genes کہتے ہیں۔ جنیٹک ٹیسٹنگ ایسے کیسز میں تصدیق کرتی ہے کہ آپ میں واقعی کوئی جینیاتی مرض ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر ہم سسٹک فائبروسس Cystic fibrosis یا Huntington’s disease کا پتا ڈائیگناسٹک ٹیسٹنگ سے لگا سکتے ہیں۔

2. علامات ظاہر ہونے سے پہلے جنیٹک ٹیسٹنگ کروانا
Presymptomatic and predictive testing

اگر خاندان میں کوئی جینیاتی بیماری موجود ہے۔ اور آپ میں اس کے کوئی آثار یا علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ ایسے میں یہ ٹیسٹنگ کی جاتی ہے کہ آپ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے رسک پر تو نہیں ہیں۔ عموماً اس میں کولو ریکٹل کیسنر colorectal cancer شامل ہے۔ اس کینسر کو ہم bowel cancer, colon cancer, or rectal cancer بھی کہتے ہیں۔ ہماری بڑی انتڑی کے حصے کولن اور ریکٹم میں کیسنر ہوجاتا ہے۔ اس کینسر کے 10 میں سے 8 مریض تشخیص کے بعد ایک سال بعد ہی وفات پاجاتے ہیں۔

3. کیرئیر ٹیسٹنگ (Carrier testing)

اگر آپ کے خاندان میں کوئی جینیاتی امراض کی فرد یا ہسٹری موجود ہے۔ جیسے سکل سیل انیمیا Sickle cell Anemia یا ہیموفیلیا یا سسٹک فائبروسس، سپائنل مسکولر اٹرافی وغیرہ۔ یا آپ کسی ایسے ایتھنک گروپ سے ہیں جہاں کوئی مخصوص بیماری یا معذوری بہت عام ہے۔ مثلاً ملتان کے ایک محلے میں 70 افراد قوت سماعت و گویائی سے محروم ہیں۔ اور کرک کے ایک گاؤں میں 50 سے زائد بونے لڑکے لڑکیاں موجود ہیں اور ان دونوں مخصوص ایریاز میں ان دونوں جینیاتی امراض کی ریشو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

آپ کے بچوں میں یہ مرض نہ جائے اس کے لیے ہم کیرئیر ٹیسٹنگ کرواتے ہیں کہ آیا ہم میوٹڈ جین کیری کیے ہوئے ہیں یا نہیں۔

میں یہاں بتاتا چلوں کہ اگر ماں اور باپ دونوں ایک ہی جینیاتی مرض کے صرف کیرئیر ہیں۔

"ان میں وہ مرض ہے نہیں”

تو 25 فیصد چانسز ہیں وہ بچہ اس مرض کے ساتھ پیدا ہوگا۔

اور 50 فیصد چانسز ہیں کہ بچہ اگر اس کے ساتھ پیدا نہیں ہوا تو کیرئیر ضرور ہوگا۔

اگر صرف ماں کیرئیر ہے تو بھی بچے کے جینوم میں 50 فیصد وہ جین منتقل ہونے کے جانسز ہیں۔

4. فارماکو جینیٹکس (Pharmacogenetics)

اگر آپ کسی مخصوص و دائمی صحت کی خرابی کے مرض یا ڈی زیز میں مبتلا ہیں۔ اور ڈاکٹروں سے سمجھ سے باہر ہے دوائی کیا دیں؟ تو جنیٹک ٹیسٹنگ کی یہ قسم اپلائی کی جاتی ہے۔ تاکہ پراسرار یا ناقابل فہم بیماری کو ٹھیک کرنے کے لیے دوائی کا سالٹ اور ڈوزیج معلوم کی جا سکے۔

مشہور گولی پیناڈول کا سالٹ پیراسیٹا مول ہے اور پیناڈول ایکسٹرا کے سالٹ میں پیراسیٹا مول کے ساتھ کیفین Caffeine بھی شامل ہوتی ہے۔ پہلے ایک گولی میں ایک سالٹ ہوتا تھا اب دو سے تین سالٹ تک ایک گولی میں ڈالے جا رہے ہیں۔ مطلب جہاں آپ دو یا تین گولیاں کھاتے تھے اب ایک ہی کھائیں گے۔

5. دوران حمل ٹیسٹنگ (Pre natal testing)

اگر آپ حاملہ ماں ہیں۔ کچھ ٹیسٹ بتا سکتے ہیں کہ آپکے پیدا ہونے والے بچے میں کوئی ابنارمل جین تو نہیں ہے۔ ڈاؤن سنڈروم اور ٹرائی سومی 18 Edwards syndrome یا ٹرائی سومی 18 یعنی Patau syndrome اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ یہ سب پری نیٹل جنیٹک ٹیسٹنگ میں ماں کے پیٹ سے سیری برو سپائنل فلیوڈ یا پلاسینٹا سے بلڈ سیل لیکر حمل کے پہلے تین ماہ میں روح پھونکے جانے سے پہلے ہی معلوم ہو سکتے ہیں۔ اب تک 2 ہزار سے زیادہ سنڈروم دریافت ہو چکے ہیں۔ 5 کے قریب تو میں پڑھ چکا ہوں۔ موسٹ کامن 20 کے قریب ہیں وہ سب میری زیر تصنیف کتاب میں شامل ہیں۔

اسی سال ایک جدید ٹیسٹ دریافت ہوا ہے جسے سیل فری ڈی این اے ٹیسٹ cell-free DNA testing کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی اس میں ہمیں یوٹرس سے پانی یا بچے کا خون لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس میں جدید ٹیکنالوجی سے ماں کے خون سے ہی پیٹ میں موجود بچے کا ڈی این اے نکال کر اسکا ٹیسٹ ہوجائے گا۔ جین ڈی این اے کا ہی ایک ٹکڑا ہے۔ چارپائی ایک ڈی این اے ہے اور اسکی ایک چھوٹی سی رسی ایک جین۔

6. نومولود بچوں کی سکریننگ (Newborn screening)

دنیا بھر میں یہ سکریننگ عام ہے۔ مگر پاکستان کے بڑے سے بڑے مہنگے ترین ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹروں کو اسکا شعور نہیں ہے۔ میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کر رہا ہوں کہ نومولود بچوں کا 1 سے 2 فیصد ہسپتالوں کو چھوڑ کر کسی بھی جگہ سماعت و بصارت کا ابتدائی ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔ جو کہ دنیا بھر میں یونیورسل ٹیسٹ بن چکا ہے۔ اسکے علاوہ رئیر جنیٹک اور ہارمونل تغیرات کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ کچھ میٹابولک خرابیوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جو بچے کی جان تک لے سکتے ہیں۔ کیوں پیدائش کے بعد پہلے سال ہی لاکھوں بچے فوراً بیمار ہو کر ایک سے دو دن میں فوت ہوجاتے؟ وجہ یہی ہے کہ ابتدائی ٹیسٹ نہیں ہوپاتے۔ اگر ہوجائیں فوری اسکا علاج ہو تو بچے فوت ہونے سے بچ سکیں۔

7۔ پری امپلانٹیشن ٹیسٹنگ (Preimplantation testing)

جب ہم مصنوعی طریقہ حمل ان ورٹو فرٹی لائزیشن IVF کے ذریعے حمل کی طرف جاتے ہیں۔ تو بلاسٹو سسٹ یا ایمبیریو میں سے لیزر کے ذریعے ایک دو سیل لے کر انکی جنیٹک ٹیسٹنگ کی جاتی ہے۔ ایمبیریو میں موجود میوٹڈ جین کو نکال دیا جاتا ہے۔۔اور صحت مند بلکل ٹھیک ایمبریو کو بچہ دانی میں داخل کیا جاتا ہے۔ اس سے چند ممکنہ جینیاتی امراض سے بچا جا سکتا ہے۔

ان میں سے پانچ قسم کی ٹیسٹنگ میری معلومات کے مطابق پاکستان میں ہو رہی ہے۔ آغا خان اور شوکت خانم لیبارٹری جینیٹک ٹیسٹنگ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ کچھ اور بھی کر رہے ہونگے معتبر اور قابل اعتماد یہ دونوں نام ہیں۔ یہ ٹیسٹنگ کافی مہنگی ہے۔ مگر ایک اسکی قیمت آپکے یا آپکے بچوں میں عمر بھر کے روگ سے تو کسی صورت بھی زیادہ نہیں ؟

Leave a reply