جینو ویرم/ ٹیڑھی ٹانگیں (Genu Varum / Bowlegs) — خطیب احمد

بوہ لیگز Bow legs بچوں میں ایک ایسی حالت ہے۔ جس میں ان کی ٹانگیں تیر کمان کی طرح گھٹنوں سے باہر کی طرف ٹیڑھی ہوتی ہیں۔ یہ عموماً تب دیکھا جاتا ہے جب بچہ چلنا شروع ہوتا ہے۔ میڈیکل یا ہڈی جوڑ کی فیلڈ سے وابستہ افراد جلد ہی یہ چیز دیکھ لیتے ہیں۔ چلتے ہوئے اگر پاؤں ساتھ جڑتے ہیں۔ گھٹنے ایک دوسرے سے دور ہیں۔ ٹانگوں کا نچلا حصہ گھٹنوں والی جگہ سے ایک دوسرے سے دور ہے تو آپکے بچے کو "جینو ویرم” ہے۔

یہ مسئلہ ایک ٹانگ میں اور دونوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ اکثریت میں دونوں ٹانگیں ہی باہر کو مڑی ہوتی ہیں۔

ماں کی کوکھ میں کچھ بچوں کی پوزیشن نارمل پوزیشن سے الٹ ہوجاتی ہے۔ عام طور پر کوکھ میں بچے کا سر نیچے اور پاؤں اوپر ہوتے ہیں مگر کچھ بچوں کا سر اوپر اور پاؤں نیچے بھی ہو سکتے ہیں۔ آخری دو تین ماہ یہ پوزیشن رہے بچہ تھوڑا صحت مند ہو (وزن 3 کلو سے زیادہ) تو بچے کی ٹانگیں ٹیرھی ہو سکتی ہیں۔ اکثریت میں پیدائش کے بعد 18 ماہ کی عمر تک یہ مسئلہ خود سے ہی ٹھیک ہوجاتا ہے۔

ویسے بھی 18 ماہ کی عمر تک ٹانگوں کا ٹیڑھا پن نارمل ہے۔ اگر تین سال کی عمر کے بعد بھی ٹانگیں ٹیڑھی ہی رہتی ہیں تو ہڈیوں کے ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت ہے۔

جنیو ویرم کی وجوہات کیا ہیں؟

1. اسکی پہلی وجہ Blount’s disease ہے۔ ہماری پنڈلی میں دو ہڈیاں ہوتی ہیں۔ بڑی مین ہڈی کو Tibia اور اسکی مددگار ہڈی کو fibula کہتے ہیں۔ ٹیبیا یعنی بڑی ہڈی کسی بھی ڈیویلپمنٹل ابنارملیٹی کی وجہ سے وہ باہر کو مڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور نتیجتاً "بوہ لیگز” بنا دیتی ہے۔

2. دوسری بڑی وجہ Rickets ہے۔ بچوں میں وٹامن ڈی اور کیلشیم کی وجہ سے ہڈیاں کمزور رہ جاتی ہیں۔ اور جب ٹانگوں پر وزن پڑتا تو ٹانگیں ٹیڑھی ہوجاتی ہیں۔

3. آپ نے دیکھا ہوگا بونوں یا لٹل پیپلز کی ٹانگیں عموماً ایسی ہی ہوتی ہیں؟ باہر کو مڑی ہوئی۔ کہنیوں سے بازو بھی باہر کو مڑے ہوتے۔ Dwarfism بھی بوہ لیگز کی وجہ بنتا ہے۔ بونا پن ایک جنیٹک ڈس آرڈر یے جس میں cartilage سے ہڈیاں بننے میں کوئی خرابی ہوجاتی یے اور پورے جسم کی ہڈیوں کی گروتھ خراب ہوجاتی ہے۔

4. بچوں کا چھوٹی عمر میں جنک فوڈ کولڈ ڈرنکس آرٹیفیشل جوسز یا چینی کے شربت کھانے کی وجہ سے بہت موٹا ہوجانا بھی ان کی ٹانگوں کو ٹیڑھا کر دیتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں تمیز اور بیلنس بچوں کو بچپن میں سکھائیں کہ بھوک رکھ کر سب کچھ کھانا ہے ورنہ بڑے ہو کر بھی جانوروں کی طرح ہر جگہ کچھ نہیں چھوڑیں گے۔ جو بچے بچپن میں ہی گھر باہر ہر جگہ ہر کھانے والے شے کا اجاڑا کر دیتے ہیں وہ بڑے ہو کر بھی اسی تربیت کا مظاہرہ ساری عمر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

5. اگر بچپن میں ٹانگ کے نچلے حصے میں کوئی شدید چوٹ لگ جاتی ہے۔ اور ہڈی ٹوٹ کر ٹھیک سے جڑ نہیں پاتی۔ تو اسکی گروتھ کا پیٹرن ابنارمل ہو کر باہر کو بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ عطائی ہڈی جوڑ والوں کے بجائے کوشش کریں کسی ماہر آرتھوپیڈک سرجن سے ٹوٹی ہوئی ہڈی جڑوائیں۔

6. جو پانی ہم پیتے ہیں اس کوالٹی کی ہے؟ اس میں فلورائیڈ Flouride اور لیڈ lead کی مقدار کتنی ہے؟ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پانی میں لیڈ یعنی تیزابیت زنگ وغیرہ کی نارمل مقدار µg/L۔ 15 ہے۔ اس سے زیادہ نہ ہو۔ گندہ پانی حاملہ ماں پئیے یا نومولود بچہ ٹانگوں کے ٹیڑھا پن باعث بن سکتا ہے۔ اپنا پانی پہلی فرصت میں لیبارٹری ٹیسٹ ضرور کروائیں کہ اس کا ٹی ڈی ایس 1 ہزار سے زیادہ نہ ہو۔ فلورائیڈ اور لیڈ کی آمیزش نارمل کے آس پاس ہو۔ فلورائیڈ کی پانی میں نارمل مقدار ہے ppm۔ 1 – 0.5

چھوٹے بچوں میں جینو ویرم کی تشخیص کے طریقے

1. ایک سال کے چھوٹے بچے کی ٹانگیں بلکل سیدھی کریں اگر گھنٹوں میں وقفہ نارمل سے زیادہ لگے بوہ لیگز ہونگی۔

2. 18 ماہ کی عمر میں ٹانگوں کے نچلے حصے کے ڈیجیٹل ایکسرے کی مدد سے اس مرض کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ کہ ہڈیوں کی گروتھ کا پیٹرن ابنارمل تو نہیں۔

3. خون کے ٹیسٹ میں ہم وٹامن ڈی کی مقدار دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیرم alkaline phosphatase کا لیول اور فلورائیڈ و لیڈ کی مقدار بھی خون سے دیکھ کر اس مرض کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔

ماہرین عموماً بچے کی پاجامی اتار کر تھوڑا دور پر چل کر آنے کا کہتے ہیں۔ فرنٹ اور بیک پر کھڑے ہو کر دیکھتے اور اپنے تجربے کی بنا کر فزیکلی بھی دیکھ لیتے کہ مسئلہ کس حد تک ہے۔

اس کا علاج کیا ہے؟

عموماً تین سال کی عمر تک یہ مسئلہ خود ہی حل ہوجاتا ہے۔ اگر نہ ہو اور بڑھتا ہی جائے تو ہم مرض کی شدت اور اسکی وجہ کو دیکھتے ہوئے اسکے علاج کی طرف جاتے ہیں۔

1۔ فزیکل تھراپی سے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو کہ عموماً ٹھیک ہو بھی جاتا ہے۔

2. مسئلہ فزیکل تھراپی سے ٹھیک نہ ہو تو ٹانگوں پر بریس لگا دی جاتی ہے۔ جو ٹانگوں کو سیدھا رکھتی ہے۔ یہ ایک دو سال تک لگانی ہوتی۔ کئی کیسز میں کئی سال تک لگائے رکھنا ہوتی۔

3. وٹامن ڈی اور کیلشیم بطور فوڈ سپلیمنٹس دیے جاتے ہیں۔ صبح سورج نکلنے کے بعد 8 بجے اور شام سے کچھ دیر قبل سورج کی دھوپ میں چھوٹے بچوں کو پلیز کھیلنے دیا کریں۔ یہ دھوپ وٹامن ڈی ان بچوں کے جسم میں داخل کرنے کا قدرتی سب سے بڑا سورس ہے۔ یورپ میں آپ دیکھتے کہ بھائی اور آپیاں ساحل سمندر پر چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر لیٹے ہوئے سورج کی دھوپ لے رہے ہوتے۔ وہ اصل میں جسم میں وٹامن ڈی کی نارمل مقدار کو نیچرلی پورا کررہے ہوتے۔

سورج کی دھوپ میں موجود ultraviolet B (UVB) ہمارے جسم میں موجود کولیسٹرول کو نیچرلی پراسس کرکے وٹامن ڈی میں بدل دیتی ہے۔ بچوں کو بھی اور خود بھی صبح اور شام کی کچھ دھوپ ضرور دیا کریں۔

4. سرجری سب سے آخر میں آتی ہے۔ اگر کوئی طریقہ بھی کارگر نہ ہو رہا ہو تو ماہر ڈاکٹرز کی ٹیم آپریشن کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس سرجری کو ہم osteotomy کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ bone grafting اور کئی بچوں کی ٹانگوں میں سٹیل کا راڈ بھی ڈالا جاتا ہے۔

سرجری آخری آپشن ہو تو چار سال کی عمر تک کروا لینے سے ہم بہتر طریقے سے اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔

عموماً سرجری کے بعد بھی کوئی بریس کا میٹل کا فریم کچھ ماہ کے لیے ٹانگوں کے ساتھ لگایا جاتا کہ ٹانگیں وزن پڑنے پر پھر سے ٹیڑھی نہ ہو جائیں۔

اس مسئلے کی روک تھام کیا ہے؟

1. بچہ جب چلنے لگے تو گھر میں موجود نوک دار جگہوں ہر فوم لگا دیں۔ بچے کی کسی طرح کوئی ہڈی نہ ٹوٹنے پائے۔ بیڈ کے بیک کے علاوہ ہر طرف نیچے فوم بچھا کر اوپر کارپٹ ڈال دیں۔

2. پانی میں فلورائیڈ اور لیڈ کی مقدار نارمل رکھیں۔ اپنا پانی فوراً چیک کروائیں۔

3۔ بچوں کو وٹامن ڈی اور کیلشیم والی نیچرل غذائیں دیں۔ دھوپ میں کھیلنے دیں۔ ماں ممکن ہو تو ضرور اپنا دودھ بچے کو پورے دو سال پلائے۔ یہ خدا کا حکم بھی یے۔ پاوڈر دودھ کی بجائے بکری یا گائے کا دودھ بچوں کو پلائیں۔

اگر اس مسئلے کو حل کیے بنا چھوڑ دیں تو بچپن میں ہی بچوں کو ایک دائمی مرض Arthritis لگ جاتی ہے۔ گھنٹوں اور پاؤں میں سوجن اور شدید درد جو کبھی جان نہیں چھوڑتا۔

اپنے آس پاس اس طرح کا کوئی بچہ دیکھیں تو اس کے والدین کو یہ آرٹیکل ضرور پڑھائیں۔ اور مستقبل میں والدین بننے والے لوگ ان سب باتوں کا خاص خیال رکھیں۔

Comments are closed.