جرمنی کے چانسلر اولف شولز ہفتوں سے جاری بحران کے بعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے جس کے بعد یورپ کی سب سے بڑی معیشت والے ملک میں 23 فروری کو قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی خبر کے مطابق اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں پہلے سے ہی متوقع ناکامی نے صدر فرینک والٹر اسٹین میئر کو اسمبلی کو تحلیل کرنے اور انتخابات کا باضابطہ حکم دینے کی اجازت دی۔66 سالہ اولف شولز سابق چانسلر انجیلا مرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے قدامت پسند اپوزیشن لیڈر فریڈرک مرز سے انتخابات میں بہت پیچھے رہے تھے۔اہم ووٹنگ شعلہ بیان تقاریر کے بعد ہوئی جس میں سیاسی حریفوں نے ایک دوسرے پر تنقید کی جس سے آئندہ انتخابات کی مہم میں ہونے والی گرما گرمی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔تین سال سے زائد عرصے تک اولف شولز کی سربراہی میں بننے والا 3 جماعتی حکمران اتحاد 6 نومبر کو ٹوٹ گیا جس دن ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ وائٹ ہاؤس کا انتخاب جیتا۔سیاسی ہنگامہ آرائی نے جرمنی کو شدید متاثر کیا ہے جب کہ وہ توانائی کی بھاری قیمتوں اور چین سے سخت مسابقت کی وجہ سے لڑکھڑاتی معیشت کو بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔برلن کو بڑے جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جب کہ یہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کا مخالف ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی نے نیٹو اور مستقبل کے تجارتی تعلقات کے بارے میں بے یقینی کی صورتحال میں اضافہ کردیا ہے۔یہ معاملات ایوان زیریں میں ووٹنگ سے قبل اولف شولز، اپوزیشن لیڈر مرز اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے درمیان گرما گرم بحث کا مرکز تھے، ایوان میں 394 اراکین پارلیمان نے 207 کے مقابلے میں شولز کے خلاف ووٹ دیا جب کہ 116 ارکان غیر حاضر رہے۔
مدارس بل ایکٹ ، فوری گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، اتحاد تنظیمات مدارس
شام میں تمام مسلح دھڑے ختم کرنے کا اعلان