پشاور میں دہشت گردی کا قہر کوئی پہلا واقعہ نہیں تا ہم حکمرانوں سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو شاید محسوس نہیں ہوا۔ دہشت گردی کی آگ کس طرح ملک کو تباہ کرتی جا رہی ہے۔ مل کر سوچیں کہاں شگاف ہے؟ کہاں غلطیاں ہیں؟ کون سی کلی انفرادی بھی اور اجتماعی بھی ٹیڑھی ہے ؟ اور ایسا کون سا گناہ ہے کہ سختیاں اور پریشانیاں، امتحان، آزمائشیں ختم ہونے کو نہیں آتیں۔ ابھی کسی پہلے سانحہ کا گرد و غبار بھی نہیں جھڑتا پھر ایک اور۔ گویا ایک تسلسل ہے جو پے در پے زنجیر کی کڑیوں کی طرح ہمارے تعاقب میں ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے یا تو انتہائی بے حس ہو چکے ہیں یا پھر مایوس و نامراد یا پھر تیسری وجہ یہ عم بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا رب بھی ہے اور خالق بھی ہے اسے سب خبر ہے اور وہ ضرور ہماری داد رسی کرے گا کیونکہ ہم اس کے چہیتے ہیں ؟ یہ کون لوگ ہیں ؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کیا چاہتے ہیں اور ہم نے وہ کون سا جرم کیا ہے کہ ظالم درندے بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میری دانست میں حکومت وقت، مقتدر ایجنسیاں، منبر و محراب، کیونکہ جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے ارباب اختیار، سیاسی و مذہبی جماعتیں دکھ اور غم کا اظہار کرنے کے بعد دھواں دھار بیانات، لوگوں کی اشک شوئی کے لئے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان ہوتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ساری قوت اقتدار کو بچانے اور طول دینے جبکہ اپوزیشن اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں لگی ہیں۔ پشاور کے واقعہ نے پورے ملک کی عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے دہشت گردوں نے سیدھا اور واضح پیغام دیا ہے کہ ہم نے ریاست کے دوسرے بڑے قانون نافذ کرنیوالے ستون جو لوگوں کی حفاظت پر مامور ہے یعنی پولیس اس پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔
سیاستدان ہوش کے ناخن لیں ایسے دل ہلا دینے والے واقعات پر سیاست اور ایک دوسرے پر الزامات سے گریز کریں وطن عزیز اور بسنے والے عوام مہنگائی، غربت بنیادی ضروریات زندگی سے پہلے ہی محروم ہیں عوام الناس کا کوئی والی وارث نہیں ہے ان کے منہ سے ہر بڑے پیٹ والے نے نوالہ چھینا ہے اس لئے رونا صرف سیاسی ابتری کا نہیں بلکہ معاشرے کے ہر بڑے طاقتور نے مظلوم کا خون نچوڑا ہے پشاور کے دل ہلا دینے والا سانحہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اخوت، رواداری، بھائی چارے کی عظیم روایات کو زندہ کریں جنگ اسی صورت جیتی جا سکتی ہے کہ افواج کو اس کے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہو۔ افواج پاکستان، قومی سلامتی کے اداروں، پولیس نے بہت قربانیاں دی اور عوام نے بھی۔ ہمارے شہیدا اور غازی اس بات کے حقدار ہیں کہ انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔








