غم کی ماری انسانیت بولتی ہے

غم کی ماری انسانیت بولتی ہے
فیصل رمضان اعوان
14دسمبر کو لاہور کی ایک خوبصورت ادبی تقریب میں عدم شرکت پرہم ایک عجیب سی الجھن اور پچھتاوے کا شکار ہیں پاکستان رائٹرز کونسل کے چیئرمین چھوٹے بھائی مرزا یسین بیگ صاحب سے کیا گیا وعدہ بھی پورا نہ ہوا ،سجادجہانیہ کی تحریروں پر مشتمل کتاب کہانی بولتی ہے کی تقریب رونمائی کو براہ راست دیکھنے سننے کا اتفاق نہ ہوسکا

سجاد جہانیہ جیسا کہ وہ منفرد اسلوب کے لکھاری ہیں ان کی منفرد اور گزرے ہوئے بھولے بچپن کی اپنی یادیں تازہ کرنے سے بھی رہے افضل عاجز کی خوبصورت اور سبق آموز باتوں سے محرومی پر بھی دل مغموم ہے، ادبی دنیا کے ایک بڑے نام جناب اصغرندیم سید کی میٹھی گفتگو بھی نہ سن سکے ،عطاالحق قاسمی بھی اس پیاری محفل میں تشریف لائے تھے ان کی بیان کردہ نصیحتوں سے بھی مستفید نہ ہوسکے ،گل نوخیز اختر کی محبتوں بھری سچی داستانیں تک بھی نہ سن سکے

اس سے قبل اسی ای لائبر یری کے ہال میں سجاد جہانیہ کی تصنیف” ٹاہلی والا لیٹربکس” کی تقریب رونمائی میں شرکت آج تک نہ بھلا سکے ،وہ محفل بھی بڑی شاندار تھی، لکھنے والے ان خوبصورت لوگوں میں گزری چند گھڑیاں ہم جیسے آوارہ لکھاریوں کے لئے گویا صدیوں کا پیغام ہوتی ہیں، ان سنئیرزاحباب کے ساتھ بیٹھے چند لمحے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں.

14دسمبر کی اس ادبی بیٹھک کا حال احوال بھی لگ بھگ چارروز بعد ہوا چونکہ تقریب کا انعقاد وسط دسمبر میں کیا گیا ویسے ہمارے بچپن کے دسمبر کی یادوں نے آج تک پیچھا نہ چھوڑا، اداس شاموں اور گہری تاریک راتوں کو بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے، ہم بھی خیر سے حسب معمول ہر سال دسمبر کے سحر میں گرفتار ہونے کے لئے گاؤں ضرور جاتے ہیں لیکن اس بار دسمبر کی راتوں میں چلنے والی سرد ہواؤں نے وہ موسیقی نہیں سنائی جو ہم اکثر تنہائی میں گھر کے آنگن سے دور نکل کر سنا کرتے تھے فاروق روکھڑی مرحوم کی غزل کا ایک شعر ہے
تھیں جن کے دم سے رونقیں وہ شہروں میں جابسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا

لیکن یقین کریں اس بار گاؤں ویران لگا تاحد نگاہ گندم کے کھیت ویران سرسوں کے پھولوں کی وہ ٹھنڈی ٹھنڈی خوشبوئیں نجانے کہاں لاپتا ہوگئی ہیں طویل عرصے سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ہرطرف مٹی کے گردو غبار ،سرما میں جھڑیوں کا وہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور گھر کے پرانے کوٹھوں کے کچے چھت سے بارش کے قطروں کی ٹپکتی وہ مسحورکن آوازیں سب نظارے نجانے کہاں کھو گئے ہیں ،حضرت انسان کی ایک دوسرے کے لئے پیدا کردہ جدید آسائشیں اور سہولتیں کہیں تو ان کا وجود ہوگا لیکن ہمارے ان گاؤں دیہاتوں میں ستے خیراں ہیں ،نہ سڑکوں کا وجود ،نہ ہی تعلیم، نہ صحت ،نہ ہی سماجی رابطوں کی جدید ٹیکنالوجی انٹرنیٹ اور نہ ہی موبائل فون کی سروس

کہانی بولتی ہے کے مصنف محترم سجاد جہانیہ صاحب اگر ہمارے ان دور دراز علاقوں میں کبھی تشریف لے آئیں تو ہمیں امید ہے کہ وہ کہانی بولتی ہے تصنیف کے بعد” غم کی ماری انسانیت بولتی ہے” لکھیں گے لیکن بہرحال ہم 14دسمبر کی لاہور میں منعقدہ تقریب میں شرکت نہ کرنے پر اپنے آپ سے بہت ناراض ہیں کیونکہ اپنے گاؤں کوٹ گلہ ضلع تلہ گنگ کی دھول اڑاتی کچی سڑکوں کی حالت زار تعلیمی اداروں کی زبوں حالی ہمارے مستقبل کے معمار وطن ہماری نوجوان نسل کا تاریک مستقبل یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے یقین کریں دکھ ہوتا ہے ہماری نسل اس تیز ترین دنیا کے ساتھ کیسے چل سکے گی، جہاں زندگی گزارنے کی بنیادی سہولتیں ہی ناپید ہوں، شاید ہماری ان محرومیوں کو سمجھنے والا کوئی نہ ہو لیکن یقین کریں یہ وہ کرب ناک اور اذیت ناک دکھ ہیں جن کا رونا ہم ایک عرصے سے رو رہے ہیں لیکن ہمارے ان مسائل میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے

لاہور کی ایک پیاری محفل میں شرکت نہ کرنے اور اچانک گاؤں جانے کے تجربے نے اس بار ہمیں بہت رلایا ہے” کہانی بولتی ہے ” تاحال ہم تک نہیں پہنچ سکی، انشااللہ جلد ہی کتاب کے حصول کو ممکن بنائیں گے اس کا مطالعہ کریں گے اور اس کے بعد ہم "غم کی ماری انسانیت بولتی ہے "کی تحریر کے لئے کوششیں تیز کردیں گے .
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو

Comments are closed.