اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی
ماہر القادری
اردو کے معروف شاعر ماہر القادری کا اصل نام نام منظور حسین اور تخلص ماہرؔ القادری ہے۔ وہ 30 جولائی 1906ء کو کیسر کلاں ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ 1926ء میں علی گڑھ سے میٹرک کرنے کے بعد بجنور سے نکلنے والے مشہور اخبار ’مدینہ‘ سے وابستہ ہو گئے۔ ’مدینہ‘ کے علاوہ اور بھی کئی اخباروں اور رسالوں کی ادارت کی ممبئی میں قیام کے دوران فلموں کے لئے نغمے بھی لکھے، تقسیم کے بعد پاکستان متقل ہو گئے-
کراچی سے ماہنامہ ’فاران‘ جاری کیا جو بہت جلد اس وقت کے بہترین ادبی رسالوں میں شمار ہونے لگا ماہر القادری نے تنقید ، تبصرہ ، سوانح ، ناول کے علاوہ اورکئی نثری اصناف میں لکھا ۔ ان کی نثری تحریریں اپنی شگفتگی اور رواں اسلوب بیان کی وجہ سے اب تک دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ ماہر القادری کی بیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں: "آتشِ خاموش” ، "شیرازہ” ، "محسوساتِ ِ ماہر” ، "نغمات ِ ماہر” ، "جذباتِ ِ ماہر” ، "کاروانِ حجاز” ، "زخم و مرہم” ، "یادِ رفتگاں” ، "فردوس” اور "طلسمِ حیات”۔ 12 مئی 1978ء کو جدہ میں ایک مشاعرے کے دوران حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہوا۔
منتخب اشعار :
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریبِ دوست کھاتے جائیے
اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی
ابتدا وہ تھی کہ جینے کے لیے مرتا تھا میں
انتہا یہ ہے کہ مرنے کی بھی حسرت نہ رہی
یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی
نقابِ رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے
پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے
اگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود
یوں کر رہا ہوں ان کی محبت کے تذکرے
جیسے کہ ان سے میری بڑی رسم و راہ تھی
ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی
دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی
مرے شوقِ دیدار کا حال سن کر
قیامت کے وعدے کیے جا رہے ہیں
چشم نم پر مسکرا کر چل دیئے
آگ پانی میں لگا کر چل دیئے
Cp