ویسے تو ارض پاکستان ایک انتہائی اعلیٰ اور متبرک نظریہ کے تحت بنایا گیا تھا اور الحمدللہ شروع میں یہ نظریہ چلتا بھی رہا اور پھر رفتہ رفتہ انگریز کی باقیات نے اپنا اثر بڑھانا شروع کیا اور اس نظریہ کو دبانا شروع کر دیا
الحمدللہ میں مایوس نہیں نا ہی کبھی مایوسی کی باتیں کیں بلکہ جس قدر میں پاکستان سے باامید ہوں واللہ دنیا میں کسی ملک سے اتنا نہیں ہوں
الحمدللہ قیام پاکستان کے بعد سے ابتک ترقی ہوئی ہے ضرور ہوئی ہے مگر رفتار بہت سست ہے جس کی وجہ دو قومی نظریہ اور اسلامی تعلیمات سے منہ موڑنا ہے
ایک دو قومی نظریہ اقبال نے دیا تھا جسے قائد اعظم نے ان کی وفات کے بعد پیش کیا تھا جس کے تحت پاکستان معرض وجود میں آیا اور وہ دو قومی نظریہ قرآن و حدیث اور اسلام کے نظریہ کے تحت تھا
مگر یہ والا دو قومی نظریہ جو آج ہم پر ہمارے حکمرانوں نے مسلط کیا ہوا ہے یہ غریب اور امیر والا ہے
جو ہمارے حکمرانوں نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ ہم یعنی وہ اشرافیہ الگ قوم ہے اور تم یعنی ان کے نزدیک ہم عوام ایک الگ قوم ہیں
وہ صاحب عزت ہیں اور ہم اچھوت اور نیچ لوگ نہیں یقین تو ان کی مراعات اور تنخواہیں دیکھ لیں اور پھر ہماری تنخواہیں اور ہم پر لگا ٹیکس دیکھ لیں
وہ خود ایک تو ایک اعلی و ارفع قوم ہے جسے ہر مراعات حاصل ہیں جبکہ عوام اچھوت ذات جسے کوئی مراعات میسر نہیں بلکہ سانسیں بھی پیسوں سے اپنے پلے سے خریدنی پڑتی ہیں

ہمارے ہاں ترقی کی رفتار اس لئے سست ہے کہ غریب کا جہاں اور جبکہ امیر کا جہاں اور ہے
ہم مسلمان ہیں الحمدللہ اسی بناء پر دو قومی نظریہ پیش کرکے آزادی حاصل کی گئی تھی
اور پاکستان ایک ایسا ملک تھا کہ شاید بہت لمبے عرصے تک ماضی میں کسی ریاست کے قیام کیلئے اتنی قربانیاں نا پیش کی گئی ہونگی جتنی قیام پاکستان کیلئے پیش کی گئیں
ویسے تو ہمارے ہاں ہر ادارہ موجود ہے جو کہنے کو بغیر غریب امیر کی تمیز کئے کام کرتا ہے مگر یہ بات بہت مشکل ہو چکی ہے

ارشار باری تعالی ہے

فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی

لوگوں میں انصاف کے فیصلے کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا
یہ آیت ہماری عدالتوں میں لکھی ہوتی ہے مگر آپ اور میں بخوبی جانتے ہیں انصاف سستا اور فوری امیر کیلئے ہے جبکہ غریب کیلئے اللہ کسی جج کے دل میں رحم ڈال دے تو ٹھیک وگرنہ 50 سال تک عدالتوں کے چکر لگائے بھی نہیں ملتا

اگر بات بنیادی سہولیات کی تو ملک چلانے والوں کیلئے تعلیم ،صحت، سیکیورٹی جیسی سہولیات سب مفت ہیں جبکہ عوام کو یہ سب پیسے سے لینا پڑتا ہے
آپ بجلی کو ہی دیکھ لیں جو پہلے سے کئی لاکھ ماہانہ لیتے ہیں ان کو بجلی مفت دی جاتی ہے جبکہ ایک مزدور کو بجلی کی قیمت اس کی ماہانہ انکم سے بھی زیادہ قیمت کی لگائی جاتی ہے جس کے باعث وہ بیچارہ چوری ڈاکہ ڈالنے پر مجبور ہوتا ہے تو پھر وہی بات عدالتوں کی ،قانون فوری حرکت میں آتا ہے اور اسے پکڑ کر اندر کر دیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس بڑے بڑے مقدموں میں نامزد لوگ ہم پر حکومت کر رہے ہوتے ہیں
غریب عوام کو گورنمنٹ سے قرض لینے کے لئے لاکھوں جتن کرنے پڑتے ہیں جبکہ اشرفیہ کو گورنمنٹ نت نئے طریقوں سے قرض دیتی ہے اور اگر گورنمنٹ بدل جائے تو پھر وارے نیارے وہ قرض معاف بھی ہو جاتا ہے
الغرض جتنا بھی لکھوں کم ہو گا غریب کیلئے صرف تسلیاں ہی ہیں جبکہ اشرافیہ کو اس قدر نوازہ جا رہا ہے کہ وہ پہلے سے پھلتا پھولتا جا رہا ہے
آپ حالیہ بجٹ دیکھ لیں خود ہی اندازہ ہو جائے گا
مگر اس سب کے باوجود میں مایوس نہیں اگر یہ حکمران انصاف نہیں کر رہے تو وہ عرش والا رب کریم تو ہے نا وہ ان شاءاللہ خوب انصاف کرنے والا ہے ہماری ساری امیدیں اسی رب تعالی سے ہیں ان شاءاللہ وہ اس دنیا میں بھی انصاف کرتا ہے اور اگلے جہاں میں بھی شاید ہماری عوام کی کچھ کمیاں کوتاہیاں ضرور ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے
اللہ رب العزت ہماری کمیاں کوتاہیاں معاف کرکے ہمیں ایک اچھی قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Shares: